'مجھے نہیں پتا کہ اس حملے کو کیا کہوں'

'مجھے نہیں پتا کہ میں اس حملے کو کیا کہوں۔۔۔میں صومالیہ کے لوگوں سے یہی کہنا چاہتا ہوں کہ وہ ہر متحد رہیں۔'

یہ الفاظ گزشتہ ہفتے صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں ہونے والے مہلک ترین ٹرک بم حملے میں زخمی ہونے والے صحافی عبدالقادر محمد کے ہیں جو اس واقعے میں زخمی ہوئے اور ان دنوں ترکی کے ایک اسپتال میں زیر علاج ہیں۔

اس بم دھماکے میں 358 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے اور اسے صومالیہ کی تاریخ کا بدترین دہشت گرد واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔

زخمیوں میں سے اکثر کو ترکی، سوڈان اور کینیا کے اسپتالوں میں بھی منتقل کیا گیا۔

Your browser doesn’t support HTML5

موغادیشو بم حملے کے متعدد زخمی ترکی میں زیر علاج

عبدالقادر وائس آف امریکہ کی صومالی سروس سے وابستہ ہیں اور وی او اے کی ترک سروس سے ایک انٹرویو میں انھوں نے اس بم دھماکے کی یادداشت کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ جب دھماکا ہوا تو اپنے دفتر میں موجود تھے جو جائے وقوع کے قریب ہی واقع تھا۔

"مجھے کچھ پتا نہیں کہ کیا ہوا جب ہوش آیا تو میں ایک اسپتال میں تھا جہاں نرسز اور ڈاکٹرز زخمیوں کو طبی امداد دے رہے تھے اور میں بھی ان زخمیوں میں سے ایک تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ میری ٹانگ، بازو اور سر پر زخم آئے ہیں۔۔مجھے اُس وقت بھی علم نہیں تھا کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ ان کے بعض صحافی ساتھیوں اور اہل خانہ نے انھیں ایک اور اسپتال منتقل کرنے کا کہا۔ "مجھے چند گھنٹوں بعد پتا چلا کہ ایک بدترین دھماکا ہوا تھا اور اس میں سیکڑوں لوگ جان سے گئے، مجھے نہیں پتا میں اس دھماکے کو کیا کہوں۔"

رواں ہفتے صومالیہ کے انٹیلی جنس حکام نے بتایا تھا کہ اس بم حملے کا نشانہ ترک فوجی اڈہ تھا۔

لیکن عبدالقادر کہتے ہیں کہ جہاں یہ دھماکا ہوا وہاں کوئی فوجی تنصیب نہیں بلکہ وہ ایک شہری علاقہ تھا جہاں کاروباری مراکز کے علاوہ شہری آباد تھے۔

"میں آپ کو بتاؤں یہ شہری علاقہ ہے یہاں ہوٹل ہیں ریستوران ہیں دکانیں ہیں اور وہاں غریب لوگ بھی آباد ہیں میں آپ کو صرف یہ بتا سکتا ہوں کہ وہاں کوئی فوجی تنصیب نہیں تھی۔"

علاج کے لیے ترکی منتقل کیے جانے والے درجنوں زخمیوں میں 16 سالہ سلمیٰ حسین امین اللہ بھی شامل ہیں جن کا دایاں پاؤں اس دھماکے میں ضائع ہو گیا۔

صومالیہ کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس حملے کے پیچھے القاعدہ سے منسلک شدت پسند گروپ الشباب ملوث ہے جس کے خلاف سرکاری فورسز بھرپور کارروائی شروع کرنے جا رہی ہیں۔

زخمی صحافی عبدالقادر محمد نے اپنے ملک کے عوام کے لیے ترک حکومت کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کو سراہتے ہوئے اس دھماکے کے بعد ہنگامی طبی امداد کے لیے کیے جانے والے اقدام پر صدر رجب طیب اردوان اور ترک عوام شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی اپنے ملک میں بسنے والوں کے لیے بھی ایک پیغام دیا۔

"میں اپنے ملک اور عوام کے لیے ایک پیغام دینا چاہتا ہوں، صومالیہ صومالیہ، ہمارا کوئی ملک نہیں لہذا یہ لازمی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔"