چکوا ل کا یہ سینٹر اور ایسے ہی بہت سے سینٹر امریکہ کے ایک فلاحی ادارے ہیلپنگ ہینڈ یو ایس اے کی مالی معاونت سے پاکستان کے بہت سے شہروں اور قصبوں میں چل رہے ہیں جہاں خواتین کو مختلف ہنر سکھا کر اپنا روزگار خود کمانے کے قابل بنایا جاتا ہے۔
میری لینڈ میں موجود لاہور کے طابعلم نوفل کامران نے کہا کہ وہ ابھی پاکستان واپس نہیں جانا چاہتے کیوں کہ ایسے وقت میں سفر سے وہ کرونا وائرس کا نشانہ بن سکتے ہیں اور پاکستان میں والدین کو اس میں مبتلا کردیں گے۔ اور اگر یہاں کرونا کا نشانہ بنے تو ان کا علاج پاکستان کی نسبت زیادہ بہتر طریقےسے ہو سکتا ہے۔
پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان خصوصی پروازوں کے ذریعے زیادہ تر برطانیہ، کینیڈا اور یورپی ملکوں میں پھنسے پاکستانیوں کو واپس لایا جائے گا۔
گزشتہ دو ہفتوں میں پہلے دو ہزار اور پھر 6700 پاکستانیوں کو ملک واپس لایا گیا ہے اور پیر سے شروع ہونے والے ہفتے میں پی آئی اے 7 سے ساڑھے 7 ہزار پاکستانیوں کو واپس لانے کا اپنا ہدف پورا کرنے کے لیے پروازیں چلائے گا۔
ڈاکٹر محمد زمان خان کا کہنا ہے کہ اس کرونا وائرس کی مؤثر دوا کی تحقیق میں اہم پیش رفت ہوئی ہے اور وہ آٹھ ایسی دوائیں ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو اس وائرس کے خلاف کام کر سکتی ہیں۔ تاہم ابھی اس سلسلے میں کچھ تجربات ابھی باقی ہیں۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر سرجن ڈاکٹر سعید قریشی نے بتایا کہ یونیورسٹی کے بائیو ٹیکنالوجسٹس کرونا وائرس پر کنٹرول کے سلسلے میں پلازما تھیراپی پر کام کر رہے ہیں اور یہ ریسرچ کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے۔
ادارے کے ترجمان افضل چمڈیا نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان میں یہ ادارہ پہلے ہی روزانہ ایک لاکھ لوگوں کو پکا ہوا کھانا مفت فراہم کر رہا تھا اور کرونا کی وبا کے پھیلاؤ کے بعد ادارے نے اپنی فلاحی سرگرمیوں کا دائرہ مزید وسیع کر دیا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ کچھ صنعتوں، مثلاً خوراک، آٹا، فارمیسی، صابن، ہینڈ واش، سینی ٹائزر جیسی انڈسٹریز کو ضروری قرار دے اور ملازمین کی کم سے کم تعداد کے ساتھ اور کرونا وائرس سے بچاؤ کے حفاظتی اقدامات کے ساتھ اپنی فیکٹریوں میں کام جاری رکھنے کی اجازت دے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا گروپ مختلف مقامات پر کرونا کے علاج میں مصروف ڈاکٹروں کو منسلک کرنے کے لیے میڈیکل ڈاکٹروں کی نگرانی میں اینڈروئیڈ ایپ تیار کر چکا ہے جس کے ذریعے تمام ڈاکٹر ایک دوسرے کے ساتھ معلومات اور اپنے تجربات شیئر کر سکیں گے۔ یہ ایپ ایک دو روز میں فعال ہو جائے گا۔
سلی کان ویلی اور پاکستان میں قائم آرٹی فیشل انٹیلی جینس کی ایک ٹیکنالوجی کمپنی ’پولٹا‘ نے بھی فوری طور پر ایک وینٹی لیٹر تیار کیا ہے، جس کا ماڈل پاکستان انجنیرنگ کونسل اور پاکستان ڈیزاسٹر مینیجمنٹ کو پیش کیا جا چکا ہے۔
پروین سعید نےبتایا کہ وہ جن بستیوں میں جارہی ہیں وہاں لوگ بھوکے بھی ہیں، بیمار بھی ہیں اور روزگار بھی نہیں ہے اور وہاں کوئی دکانیں بھی نہیں ہیں۔ وہ کرونا وائرس سے نہیں ڈر رہے بلکہ وہ بھوک سےڈر رہے ہیں۔
ڈاکٹر سعید نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں بہتر یہ ہی ہوگا کہ اگر کسی شخص میں کرونا کی تشخیص ہو چکی ہو وہ یہ دوا استعمال نہ کرے، بلکہ اس سلسلے کی دوسری ادویات کو استعمال کیا جائے مگر وہ بھی ڈاکٹر کے مشورے سے۔
اسلام آباد میں قائم پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن 'پیما' نے فیس بک اور واٹس ایپ پر 'پیما ہیلتھ لائن' کے نام سے ملک گیر سطح کی ٹیلی میڈیسن سروس شروع کر دی ہے، جس میں لوگوں کو ویڈیو اور آڈیو کے ذریعے طبی مشورے فراہم کئے جائیں گے
اکنا ریلیف یو ایس اے کے ہنگر ریلیف شعبے کے ڈائریکٹر، زاہد حسین نے بتایا کہ جب سے کرونا وائرس بحران شروع ہوا ہے اکنا نے لوگوں کو ان کی دہلیز پر گراسری فوڈ باکسز مفت پہنچانے کے ایک ملک گیر پراجیکٹ کا آغاز کر دیا ہے۔
کرونا بحران نے ٹیلی ورکنگ کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کر دیا ہے اور اس مشکل صورتحال میں یہ اداروں کےکام کا پہیہ چلنے کا ایک موثر ذریعہ بن کر سامنے آیا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں ٹیلی ورکنگ کا سلسلہ بہت سےاداروں میں بہت عرصے سے جاری ہے۔ لیکن، کیا اس بحران کے بعد اس سلسلے میں اضافہ کیا جائے گا؟
دنیا کے اکثر ملکوں نے کرونا وائرس کے خطرے سے بچاؤ کے لیے اپنے ملازموں کو ٹیلی ورکنگ کی ہدایات جاری کی ہیں۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ ایک نیا تجربہ ہے۔
لوگ فون کر کے، خوراک، ادویات یا اپنی ضرورت کی دوسری اشیا اپنے گھروں تک پہنچانے کی درخواست کرتے ہیں۔ اور یہ رضاکار گراسری یا دوسرے اسٹورز سے ان کی مطلوبہ چیزیں خرید کر ان کے گھروں کے دروازوں پر رکھ کر انہیں فون پر اطلاع دیتے ہیں کہ چیز ان کی دہلیز پر رکھ دی گئی ہے، جہاں سے وہ انہیں اٹھا لیتے ہیں۔
پاکستان میں اس اکیڈمی کا قیام 2009 میں عمل میں آیا تھا، جس کا مقصد ملک میں سائنس کی یونیورسٹیوں اور سائنسی اداروں کے ساتھ مل کر سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ میں مدد دینا تھا۔
پیدائش کے بعد دو سال تک بچے کے دماغ میں اسپیچ سینٹر تیار ہو جاتا ہے۔ اگر بچہ سن نہیں رہا تو اس کا اسپیچ سنٹر تیار نہیں ہو گا، جس کے بعد وہ پوری زندگی نہ تو سن سکے گا اور نہ ہی بول سکے گا۔
انٹر ڈسپلینری انکلیوسو انٹرنیشنل سائنس یا ڈبل آئی سائنس کانفرنس کا اہتمام ہائر ایجو کیشن پنجاب اور انٹرنیشنل سوسائٹی فار آپٹکس اینڈ فوٹونکس کے اشتراک سے کیا جا رہا ہے۔
مزید لوڈ کریں