طلبہ ’ایج آف اینگر‘ سے گزر رہے ہیں۔ انھیں استعمال سب کرتے ہیں، نمائندگی کوئی نہیں دیتا۔ اصل مسئلہ انتظامیہ ہے جس کا احتساب نہیں ہوتا۔ چار لاکھ سالانہ فیس لینے والی یونیورسٹی کیوں سمجھتی ہے کہ وہ جانور پیدا کر رہی ہے؟
سندھ حکومت کو 18ویں ترمیم کے بعد اس کا اختیار ہے، بہترین صورت یہی ہو گی کہ پورے پاکستان میں طلبہ یونینز بحال ہو جائیں، تعلیمی اداروں کو ضابطہ اخلاق بھی طے کرنا چاہئیے تاکہ ان کا غلط استعمال نہ کیا جا سکے۔
ضیا دور میں جماعت اسلامی افغان جنگ کی وجہ سے ملک میں انتشار نہیں چاہتی تھی، جمعیت طلبہ یونینز پر پابندی کے خلاف احتجاج کر رہی تھی، اس وقت جماعت اور جمعیت کی سوچ میں فرق تھا۔
دنیا میں تنہا، اپنے وطن سے ہزاروں میل دور اجنبی ملک میں پناہ گزیں اور انگریزی سے ناواقف لڑکا نیویارک کا سب سے بڑا ڈان کیسے بنا، یہ ایک دلچسپ کہانی ہے
کراچی یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی میں سرکاری سرپرستی ملنے کے بعد مذہبی تنظیم کے لڑکے شیر ہوئے، جب تک ڈی ایس ایف اور این ایس رہی، وہ کچھ نہیں کر پائے۔
اسٹیبلشمنٹ شروع سے جمہوری ادارے نہیں چاہتی تھی، چاہے آزاد عدلیہ ہو، چاہے پارلیمان ہو، طلبہ یونینز اس لیے ختم کیں کہ وہ سیاست دانوں کا بریڈنگ گراؤنڈ تھیں
غیر جمہوری عناصر کو مضبوط کرنے کے لیے منظم طریقے سے جمہوریت کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا، سیاست کو گالی بنادیا گیا، پارلیمان کو برا بھلا کہنا فیشن بن گیا
خوش بخت شجاعت کے بقول، میں نہیں کہہ سکتی کہ طلبہ یونینز بحال کی گئیں تو وہ پہلے کی طرح کام کرسکیں گی یا نہیں، بچوں کو تربیت دینا پڑے گی کہ یونین کیا ہوتی ہے۔
60ء کے عشرے کے آخر میں پوری دنیا میں طلبہ تحریکیں تھیں، حالات بدلے اور 1990 کی دہائی کے اوئل سے پوری دنیا میں طلبہ غیر سیاسی ہوتے گئے
اسکولوں کالجوں میں تقریروں کا، بحث مباحثے کا اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا کلچر بنے گا تب ہی طلبہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد معاشرے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں گے
کالجوں یونیورسٹیوں میں انتخابات ہوتے تھے تو طلبہ جمہوری عمل کو سیکھتے سمجھتے تھے۔ اس پر پابندی لگانے سے جمہوری نشوونما رک گئی
جماعت اسلامی کے سابق امیر کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے بائیں بازو کے رہنماؤں کو خراب کیا۔ انھیں وزیر بنادیا۔ ان کی زبان بند ہو گئی۔ اس سے ان کی نظریاتی تحریک کو نقصان پہنچا۔
جاوید اقبال گھر سے بھاگے ہوئے بچوں سے دوستی کرتا تھا، ان کے ساتھ زیادتی کے بعد گلا گھونٹ کر مار ڈالتا تھا۔ تیزاب سے ان کے اعضا گلاتا اور باقیات کو دریا میں بہا دیتا تھا
فلم کا مرکزی کردار ایک ناکام کامیڈین ہے۔ اس کے لطیفوں پر کوئی نہیں ہنستا۔ اس کی ملازمت نہیں چل پاتی۔ وہ دماغی بیماری میں مبتلا ہے۔ وہ مالی مسائل کا شکار ہے۔ شرارتی لڑکے اسے تنگ کرتے ہیں۔ وہ خود کو دنیا میں تنہا محسوس کرتا ہے۔
گزشتہ اتوار کو اسلام آباد لٹریچر فیسٹول میں ایک سیشن کا عنوان ’تبدیلی کے زمانے میں طنز و مزاح‘ تھا۔ ماڈریٹر ندیم فاروق پراچہ تھے جبکہ مہمانوں میں فصیح ذکا، علی آفتاب سید اور جارج فلٹن شامل تھے
ہم نثری نظم لکھنے والوں نے غلطی کی کہ مشاعروں سے دور رہے۔ خود ہی یہ سوچ لیا کہ شاید سامعین اسے پسند نہیں کریں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔
’’مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو کم گنا گیا تاکہ اسے فنڈ کم ملیں۔ جب تک یہ عدم مساوات برقرار رہے گی، کراچی کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ کراچی کے مسائل صرف اردو بولنے والوں کے مسائل نہیں ہیں، تمام اہل کراچی کے مسائل ہیں۔‘‘
قیام پاکستان کے وقت دارالحکومت کراچی کو بنایا گیا تھا لیکن ایوب دور میں اسے منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ٹائمز آف انڈیا نے بھی بھارتی فوجی ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ پاکستان کی ایک بریگیڈ فوج کسی اور مقام سے کنٹرول لائن کے قریب منتقل ہوئی ہے۔
سیکرڈ گیمز کے ڈائریکٹر انوراگ کیشیپ ٹائیگر میمن کی سرگرمیوں پر ایک فلم بلیک فرائی ڈے بنا چکے ہیں۔ آج کل ٹائیگر میمن کہاں ہیں، اس بارے میں کسی کو خبر نہیں۔
مزید لوڈ کریں