رسائی کے لنکس

ٹیکس نادہندگان کی سمیں بلاک؛ 'نظام کی بہتری تک ٹیکس نیٹ بڑھانا مشکل کام ہے'


  • ایف بی آر نے ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والے پانچ لاکھ سے زائد افراد کی موبائل فون سمیں بلاک کی ہیں۔
  • تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایف بی آر کے اقدام سے نان فائلرز پر دباؤ پڑے گا۔
  • موبائل کمپنیوں نے ایف بی آر سے درخواست کی تھی کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں سمز بلاک کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتیں، مہتاب حیدر
  • لوگوں کے ٹیکس نیٹ میں شامل نہ ہونے کا ذمے دار ٹیکس کا موجودہ نظام ہے، تاجر رہنما اجمل بلوچ
  • ایف بی آر کے حوالے سے لوگوں میں جو تاثر پایا جاتا ہے اس کی وجہ سے آج تک فائلر نہیں بن سکا، شہری ناصر علی
  • لوگوں کو ایف بی آر پر اعتماد ہی نہیں اور وہ ٹیکس نیٹ سے دور رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، سینئر صحافی

اسلام آباد _ پاکستان میں ٹیکس نیٹ کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس نہ دینے والے پانچ لاکھ سے زائد افراد کی موبائل فون سمیں بلاک کر دی ہیں جب کہ تاجر رہنماؤں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹیکس جمع کرنے کے نظام میں پیچیدگیوں کے باعث لوگ دور رہنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

ایف بی آر نے رواں ہفتے آٹھ ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل 'انکم ٹیکس جنرل آرڈر' جاری کیا ہے جس کے تحت ملک بھر میں ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی شروع کر دی ہے۔

ایف بی آر کے مطابق ملک بھر میں ٹیکس نادہندگان کے خلاف پہلے مرحلے میں قابلِ ذکر آمدنی رکھنے کے باوجود انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والے پانچ لاکھ چھ ہزار 671 افراد کی موبائل فون سمیں بلاک کی ہیں۔

تاجر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس عمل سے کچھ خاص فائدہ نہیں ہوگا کیوں کہ ایف بی آر کا ٹیکس نظام فائلرز کو مزید پریشان کرتا ہے۔

البتہ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایف بی آر کے اقدام سے نان فائلرز پر دباؤ پڑے گا اور امکان ہے کہ وہ ٹیکس نیٹ میں شامل ہوں گے۔

بعض نان فائلرز ایف بی آر کے نظام کو ٹیکس نیٹ میں شامل نہ ہونے کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ ٹیکس نیٹ میں شامل ہو کر ان کی کاروباری مشکلات میں اضافہ ہوجائے گا اور ٹیکس ڈپارٹنمنٹ کی طرف سے نوٹسز اور رشوت کے مطالبات انہیں مزید تنگ کرسکتے ہیں۔

ایف بی آر کے اقدامات ایسے موقع پر سامنے آئے ہیں جب پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے اور حکومت آئی ایم ایف سمیت عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ پر ٹیکسز میں اضافہ کر رہی ہے۔

وزارتِ خزانہ کے مطابق مالی سال کے ابتدائی نو ماہ کے دوران ملک کا مالی خسارہ چار ہزار 337 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔

صارفین کی سمیں کیسے بحال ہوں گی؟

انکم ٹیکس جنرل آرڈر کے مطابق جن افراد کی موبائل فون سمیں بلاک کی گئی ہیں وہ ایف بی آر اور متعلقہ کمشنر ان لینڈ ریونیو کی منظوری کے بغیر بحال نہیں ہوسکیں گی۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے معاشی سرگرمیوں کو کور کرنے والے صحافی مہتاب حیدر کہتے ہیں ایف بی آر نے 20 لاکھ سے زائد ٹیکس نادہندگان کی نشاندہی کی تھی جنہیں نوٹسز بھجوائے گئے لیکن ان میں سے بیشتر نے نوٹسز کا جواب بھی نہیں دیا۔

مہتاب حیدر کے مطابق موبائل کمپنیوں نے ایف بی آر سے درخواست کی تھی کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں سمز بلاک کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتیں جس پر پہلے مرحلے میں پانچ لاکھ سے زائد سمیں بلاک کی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مہتاب حیدر نے کہا کہ ایف بی آر کے پاس نان فائلرز کے سم کارڈ کے علاوہ بجلی کنکشنز منقطع کرنے کے بھی اختیارات ہیں اور اس حوالے سے ملک میں 145 ڈسٹرکٹ ٹیکس آفیسرز کو خصوصی اختیارات دے دیے گئے ہیں۔

مہتاب حیدر کے مطابق ٹیکس نادہندگان کے بینک اکاؤنٹس کو بلاک کرنے کی کوئی تجویز ابھی زیرِ غور نہیں۔ اگر صارفین کے بینک اکاؤنٹس منجمد کیے گئے تو ملک میں کیش اکانومی پر زور بڑھ جائے گا اور لوگ بینکنگ ڈاکومینٹڈ معیشت پر نہیں چلیں گے۔

تاجر رہنما اجمل بلوچ کہتے ہیں کہ یہ ایف بی آر کی ناکامی ہے کہ وہ لوگوں کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کرسکے۔

انہوں نے کہا کہ سمز کی بندش ٹیکس وصولی کا کوئی طریقہ نہیں کیوں کہ ماضی میں شناختی کارڈ پر خریداری کا منصوبہ بھی آیا تھا جو بری طرح ناکام ہوا۔

اجمل بلوچ کے مطابق حالیہ عرصے میں تاجر دوست اسکیم لائی گئی جو ناکام ہوئی، ایسے میں اگر سمز بند بھی کر دی جائیں گی تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جو شخص ٹیکس نیٹ میں نہیں آنا چاہتا وہ نہیں آئے گا۔

لوگ فائلر کیوں بننا نہیں چاہتے؟

اس بارے میں اسلام آباد میں کاروبار کرنے والے ایک نان فائلر ناصر علی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر کے حوالے سے لوگوں میں جو تاثر پایا جاتا ہے اس کی وجہ سے وہ آج تک فائلر نہیں بن سکے۔

ان کے بقول، "میرے کئی کاروباری دوست ہیں جو آئے دن ایف بی آر کے نوٹسز کو بھگت رہے ہوتے ہیں۔ تمام تر ٹیکس ادائیگی کے باوجود انہیں کسی بھی سیل پرچیز پر بھاری ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔"

ناصر نے بتایا کہ وہ زیادہ کاروبار کیش کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "ہم جب ڈائریکٹ ٹیکسز پہلے سے دے رہے ہیں۔ اگر فائلر بن کر بینک کے ذریعے ادائیگیاں کریں تو مزید خود کو عذاب میں ڈالنے والی بات ہے۔"

سم کی بندش یا گاڑی کی خریداری پر اضافی ٹیکس کی ادائیگی سے متعلق سوال پر ناصر نے کہا کہ اگر سم بند ہوگئی تو کسی اور کے نام سے نئی سم نکلوا لی جائے گی۔

سینئر صحافی مہتاب حیدر کے مطابق لوگوں کے فائلر نہ بننے کی بڑی وجہ یہ تاثر ہے کہ وہ فائلر بننے سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا اور اس وجہ سے لوگ زیادہ ادائیگی تو کررہے ہیں لیکن ٹیکس نیٹ میں داخل نہیں ہو رہے۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کو ایف بی آر پر اعتماد ہی نہیں اور وہ ٹیکس نیٹ سے دور رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے اب اس معاملے پر کام ہو رہا ہے اور ان افراد کو ڈاکیومنٹڈ اکانومی کی طرف لانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ تاہم کیش اکانومی کسی بھی صورت حکومت کے لیے قابلِ قبول نہیں۔

تاجر رہنما اجمل بلوچ کے مطابق لوگوں کے ٹیکس نیٹ میں شامل نہ ہونے کا ذمے دار ٹیکس کا موجودہ نظام ہے۔ کیوں کہ لوگ ٹیکس نیٹ میں آنا چاہتے ہیں لیکن ایف بی آر کے ذمے داران خود لوگوں کو ٹیکس بچانے کے راستے دکھاتے ہیں۔

اجمل بلوچ کے مطابق "کچھ عرصہ قبل پوائنٹ آف سیل پر ڈیوائسز لگائی گئیں اور کہا گیا کہ اس کے ذریعے ٹیکس چوری کو روکا جائے گا لیکن چیئرمین ایف بی آر نے ہمیں خود بتایا کہ جہاں جہاں ڈیوائسز لگی تھیں وہاں سے پہلے کے مقابلے میں ٹیکس آنا مزید کم ہوگیا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے ماضی میں سیلف ٹیکس اسسیسمنٹ اسکیم اور اس جیسی کئی اسکیمیں لائی گئیں جو سود مند نہ ہونے کے باعث بند کر دی گئیں۔ ان کے بقول حکومت شہریوں کو زبردستی ٹیکس نیٹ میں لانا چاہتی ہے تو کوشش کر لے لیکن نظام کی بہتری تک لاکھوں افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانا بہت مشکل کام ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG