رسائی کے لنکس

انسان نے پہلی بار گھوڑے کی سواری کب کی تھی؟


یورپ سے ملنے والے انسانی ڈھانچوں پر ملنے والے نشانات کو ماہرین گھڑ سوار کی بیماری قرار دے رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
یورپ سے ملنے والے انسانی ڈھانچوں پر ملنے والے نشانات کو ماہرین گھڑ سوار کی بیماری قرار دے رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے یورپ سے ملنے والے انسانی ڈھانچوں سے گھڑ سواری کے پانچ ہزار برس قدیم ثبوت دریافت کیے ہیں۔

امریکہ کی ریاست نیو یارک کے ہارٹوِک کالج میں آثارِ قدیمہ کے ماہر اور حالیہ سامنے آنے والی نئی تحقیق کے شریک مصنف ڈیوڈ انتھونی کہتے ہیں کہ ریل گاڑی کی دریافت سے قبل گھڑ سواری ہی انسان کے تیز ترین سفر کا ذریعہ تھی۔

ان کے بقول جب آپ گھڑ سواری کرتے ہیں اور یہ تیز ہو، تو یہ سنسنی خیز عمل ہوتا ہے۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق محققین نے بلغاریہ، پولینڈ، رومانیہ، ہنگری اور چیک ری پبلک میں کانسی کے عہد کے 200 ڈھانچوں کا معائنہ کیا۔

اسی تحقیق کے ایک اور شریک مصنف اور یورپی ملک فن لینڈ کی یونی ورسٹی آف ہیلسنکی سے تعلق رکھنے والے ماہر مارٹن ٹراؤٹ مین ان ڈھانچوں پر ملنے والے نشانات کو گھڑ سوار کی بیماری قرار دیتے ہیں۔

ان میں وہ چھ نشانات شامل ہیں جن سے تصدیق کی جاسکتی ہے کہ یہ شخص جانوروں یا گھوڑوں کی سواری کرتا تھا جن میں کمر اور ٹانگوں کی ہڈیوں پر نشانات شامل ہیں۔

ٹراؤٹ مین کا کہنا ہے کہ ہڈیوں کے ذریعے کسی بھی شخص کی خود نوشت کو پڑھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ایسے انسانی عہد کے ڈھانچوں کا بغور معائنہ کیا جب گھڑ سواری عام تھی۔

کیا نیویارک کے گھوڑے اب کام پر نہیں جائیں گے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:52 0:00

نئی تحقیق میں ماہرین نے انسانی ڈھانچوں کا مطالعہ کیا جن میں وہ ساڑھے چار سے پانچ ہزار برس قدیم پانچ ایسے گھڑ سواروں کی نشاندہی کرنے میں کامیاب ہوئے جن کا تعلق کانسی کے عہد سے تھا جب کہ وہ ایک قبیلے 'یمنایا' سے تعلق رکھتے تھے۔

'اے پی' سے گفتگو کرتے ہوئے یونی ورسٹی آف ایکسٹیر کے ماہرِ آثار قدیمہ ایلن اوٹرام کا کہنا تھا کہ اگرچہ گھوڑوں کو سدھانے اور ان کا دودھ استعمال کرنے کے ثبوت اس سے بھی قبل پائے گئے ہیں البتہ یہ گھڑسواری کے قدیمِ ترین آثار ہیں جو نئی تحقیق میں سامنے آئے ہیں۔

گھڑ سواری کی تاریخ کے حوالے سے سامنے آنے والی نئی تحقیق گزشتہ جمعے کو سائنسی جرنل 'سائنس ایڈوانسز' میں شائع ہوئی ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ یورپ اور ایشیا میں گھوڑوں کو پالنے کا عمل سست رفتار تھا۔

یمنایا قبیلے کے افراد سے متعلق یہ آثار اس لیے بھی اہم ہیں کیوں کہ یوکرین اور مغربی روس سے ابتدا کرنے والی یہ قوم چند ہی نسلوں میں ہنگری سے لے کر منگولیا تک پھیل گئی تھی۔

اس تحقیق کے ایک اور شریک مصنف اور یونی ورسٹی آف ہیلسنکی کے ماہرِ آثارِ قدیمہ وولکر ہائیڈ کا کہنا ہے کہ انڈو یورپی زبانوں کے پھیلاؤ کا تعلق ان افراد کے پھیلاؤ سے جوڑا جاتا ہے اور ان کی وجہ سے یورپ کا جینیاتی چہرہ تبدیل ہوا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ان افراد کا تیزی سے اتنے وسیع علاقے میں پھیلنے کا تعلق گھوڑوں کی سواری سے ہو سکتا ہے کیوں کہ گھوڑوں کے استعمال کے بعد فاصلے کم ہو جاتے ہیں اور ان مقامات کے سفر کے بارے میں بھی سوچا جا سکتا ہے جن کا پہلے تصور نہ کیا گیاہو۔

وولکر ہائیڈ کا کہنا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ یہ یمنایا قبیلہ جنگجو ہو کیوں کہ آثار سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے زیرِ استعمال گھوڑے جنگوں کے لیے موزوں نہیں تھے۔

یمنایا قبیلے کے ملنے والے آثار کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ گھوڑوں کی وجہ سے انہیں خبر رسانی، میل جول اور اپنے مال مویشیوں کی نگرانی کرنے میں آسانی رہی ہوگی جو ان کی معیشت میں مرکزی اہمیت رکھتے تھے۔

اس رپورٹ کے لیے مواد خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG