رسائی کے لنکس

ڈاکوؤں کے ہاتھوں متعدد شہری یرغمال؛ سندھ حکومت کا کچے میں ایک اور آپریشن


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقوں میں کچے کے وسیع رقبے پر پانچ اضلاع میں امن و امان کی صورتِ حال مسلسل خراب ہے۔ شکار پور، کشمور، گھوٹکی، سکھر اور جیکب آباد کے اضلاع کے 40 شہری کچے کے ڈاکوؤں کے ہاتھوں مغوی بنے ہوئے ہیں۔

ان اضلاع میں ڈاکوؤں سے یرغمال شہریوں کی اکثر ’بھنگ‘ یعنی لاکھوں روپے تاوان کی ادائیگی کے بعد رہائی معمول بنتی جا رہی ہے۔

ان پانچ اضلاع میں کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں جب کہ یہ پولیس کے لیے ’نوگو ایریاز‘ بن گئے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق شمالی سندھ کے ان پانچ اضلاع کی آبادی لگ بھگ 72 لاکھ چھ ہزار 890 ہے جہاں ڈاکو بغیر کسی خوف کے جہاں چاہیں کارروائی کرکے فرار ہو جاتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ڈاکوؤں کی کارروائیوں سے ان پانچ اضلاع میں نیشنل ہائی وے اور پولیس کی چوکیاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔

امن و امان کی خراب صورتِ حال کے باعث کشمور کے علاقے کرمپور کے رہنے والے اسکول ٹیچر اللہ رکھیو نندوانی کو اسکول جانے کے لیے ہتھیار ساتھ رکھنا پڑتا تھا۔

چند دن قبل 18 مارچ کو اللہ رکھیو نندوانی اسکول جانے کے لیے نکلے تو ڈاکوؤں نے ان کو قتل کر دیا۔ اس سے قبل بھی اسی ضلع میں شعبۂ تعلیم سے وابستہ پروفیسر اجمل ساوند کو قتل کیا گیا تھا۔

کشمور، شکار پور، جیکب آباد اور دیگر اضلاع سے سندھ میں برسرِ اقتدار جماعت پیپلز پارٹی کے منتخب نمائندوں کے مطالبے پر کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف ایک بار پھر آپریشن شروع کیا گیا ہے۔

اس سے قبل بھی متعدد بار کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کیے گئے ہیں۔ مگر حکومت اور سیکیورٹی ادارے ان ڈاکوؤں کے مکمل خاتمے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔

ڈاکوؤں کے ہاتھوں یرغمال شہری

پولیس، مقامی صحافیوں اور منتخب نمائندوں کے مطابق ضلع شکارپور میں ڈاکوؤں کے پاس کم سے کم 10 شہری یرغمال ہیں جن کو تقریباً تین ہفتوں کے دوران ڈاکوؤں نے اغوا کر کے شکارپور کے کچے کے علاقے میں یرغمال بنا رکھا ہے۔

شکارپور کے کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں متعدد شہری اغوا ہو چکے ہیں جن میں مبینہ طور پر گیس کمپنی کے ملازم عبد الستار سیٹھار، ان کے دوست گل شیر سیٹھار، ایک مقامی مستری عمران پہو سمیت کئی شہری جن میں چنیسر پہوڑ، منظور لاشاری، معشوق لاشاری، ثناء اللہ سومرو، بشیر احمد پہوڑ، علی نوز بروہی اور اسرار احمد بروہی شامل ہیں۔

کشمور کے کچے کے علاقے میں بھی ڈاکوؤں کے پاس کم سے کم 10 شہری یرغمال ہیں جن میں جاوید شیخ، علی شیر شیخ، میرخان شیخ، سہراب شیخ، علی بہار سہریانی، شمن علی، ذیشان سہریانی، درمحمد، خالد اور صدرالدین میرانی شامل ہیں۔

چند روز قبل کشمور میں ڈاکوؤں کے مطالبے پر رقم نہ دینے پر عبدالرافع سمیجو نامی ایک شخص کو قتل کر دیا گیا تھا۔

اس ساری صورتِ حال کے حوالے سے ایک مقامی صحافی عمران کوسو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران کشمور سے لاتعداد شہری اغوا ہوئے اور لگ بھگ سارے مغوی ڈاکوؤں کو تاوان کی ادائیگی کے بعد رہا ہو کر گھر واپس آئے۔

صحافی عمران کوسو کا مزید کہنا تھا کے اغوا کی کارروائیاں یہاں ڈاکوؤں کے لیے بڑا کاروبار ہے۔ امن امان کی تشویش ناک صورتِ حال کے باعث مقامی افراد خوف میں مبتلا ہیں جب کہ لوگ نقل مکانی کرنے پر بھی مجبور ہو رہے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق گھوٹکی میں بھی اس وقت ڈاکوؤں کے پاس یرغمال شہریوں کی تعداد 10 ہے جن میں دو بھائی محمد نواز اور حق نواز سومروبھی شامل ہیں ان کے علاوہ اختر موچی، اقبال موچی، سائیں ڈنو گھوٹو، عجب گل لغاری جب کہ صوبۂ پنجاب سے تعلق رکھنے والے دو ڈرائیور اور کلینر بھی ان میں شامل ہیں۔

دس دن قبل 14 مارچ کو رتیک کمار نامی ایک شخص بازیاب ہوئے جس کے بارے میں مقامی سندھی میڈیا نے بتایا کہ وہ 70 لاکھ روپے ادا کرنے کے بعد بازیاب ہو سکے ہیں۔

گھوٹکی کے مقامی صحافی ماجد سنگھڑ نے بتایا کہ گزشتہ برس کے دوران گھوٹکی کے کچے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کیا گیا تھا۔ مگر وہ آپریشن کامیاب نہیں ہوا۔ اس آپریشن میں پولیس کو ناکامی کے ساتھ بھاری جانی نقصان ہوا تھا۔ اس آپریشن کے دوران ڈاکوؤں کی فائرنگ میں ایک ڈی ایس پی، دو ایس ایچ او اور 12 اہل کار ہلاک ہوئے تھے۔

سکھر کے چار شہری بھی ڈاکوؤں کےہاتھوں اغوا ہو چکے ہیں جن میں سہراب، میر خان اور علی شیر نامی افراد شامل ہیں۔

اس کے علاوہ سکھر کی ایک ہندو بچی پریا کماری بھی ان مغویوں میں شامل ہے۔

پریا کماری کو 19 اگست 2021 کو اغوا کیا گیا تھا مگر وہ تاحال بازیاب نہیں ہو سکی ہے۔

سکھر کی ہندو کمیونٹی کے علاوہ سندھ بھر سے بچی کی بازیابی کے لیے مہم چلائی جا رہی ہے اور سوشمل میڈیا پر بھی اس حوالے سے آواز اٹھائی گئی ہے۔ البتہ سندھ پولیس تا حال سکھر کی اس بچی کو بازیاب نہیں کرا سکی ہے۔

یاد رہے کہ کچھ ماہ قبل سکھر شہر میں پریس کلب کے نزدیک صحافی جان محمد مہر کو بھی ڈاکو قتل کر کے با آسانی فرار ہوگئے تھے۔

صحافی جان محمد مہر ڈاکوؤں کی کارروائیوں کی رپورٹنگ کرنے کے حوالے سے مشہور تھے۔

ان کے قاتلوں کا بھی پولیس سراغ نہیں لگا سکی ہے۔

ضلع جیکب آباد کی تحصیل تھل سے 17 برس قبل فضیلا سرکی نامی ایک لڑکی کو اغوا کیا گیا تھا اس وقت فضیلا سرکی کی عمر چھ برس تھی۔ان کو بھی ڈیڑھ دہائی بعد پولیس بازیاب نہیں کرا سکی ہے۔

جیکب آباد سے 11 برس قبل حافظ الطاف کھوسو نامی شہری کو اغوا کیا گیا تھا جب کہ دیگر چھ شہری برسوں قبل اغوا کیے گئے تھے مگر تاحال ان کو واپس لانے میں انتظامیہ کو کامیابی نہیں ملی۔

سندھ میں مذکورہ اضلاع کے علاوہ سانگھڑ کے تین شہری اغوا کیے گئے تھے جن کی رہائی کے لیے اطلاعات کے مطابق ڈاکوؤں نے ایک کروڑ 25 لاکھ روپے تاوان طلب کیا بعد ازاں تاوان کی رقم میں مزید 50 لاکھ روپے کا اضافہ کر دیا۔

میرپور خاص سے شہری صابو مری کو اغوا کیا گیا۔ اس طرح لاڑکانہ سے نوجوان خیر محمد جمالی بھی ڈاکوؤں کے ہاتھوں اغوا ہونے والوں میں شامل ہیں۔

اطلاعات کے مطابق لاڑکانہ کے مغوی خیر محمد جمالی کی ڈاکوؤں نے تشدد کرنے کی ویڈیو جاری کی اور بازیابی کے لیے پہلے 60 لاکھ روپے طلب کیے گئے پھر تاوان کی رقم کم کرکے 25 لاکھ روپے کی گئی۔ تاہم ان کے اہلِ خانہ کی جانب سے یہ رقم بھی نہ دینے پر آخری میں 16 لاکھ روپے تاوان مانگا گیا۔

ضلع ٹنڈوالہیار سے کچھ روز قبل 12 برس کی فاطمہ اور چھ برس کی رافعہ کو گھر سے اغوا کیا گیا مگر وہ تاحال بازیاب نہیں ہو پائی ہیں۔

جامشورو سے ستمبر 2023 میں تین باورچیوں کو دعوت کا کھانا پکانے کے لیے شکارپور بلا گیا لیکن پھر ان کو اغوا کر لیا گیا۔

سندھ میں ڈاکو شہریوں کو کیسے اغوا کر رہے ہیں؟

سندھ کے اضلاع شکارپور، کشمور، گھوٹکی، سکھر اور جیکب آباد کے کچے کے ڈاکو شہریوں کو اغوا کرنے اور پھر بازیابی کے لیے بھنگ یعنی تاوان وصولی کے لیے سوشل میڈیا اور موبائل فون کا استعمال کر رہے ہیں۔

ڈاکو لوگوں کو گاڑیاں سستے داموں پر فروخت کرنے کا لالچ دیتے ہیں جب وہ اس مقام پر پہنچتے ہیں جہاں ان کو گاڑی دکھانے کا جھانسہ دیا جاتا ہے تو ان کو اس مقام سے اغوا کر لیا جاتا ہے۔

ڈاکو موبائل فون میں اس طرح کی ایپلی کیشن استعمال کرتے ہیں جس سے آواز کو لڑکیوں کی آواز میں بدل دیا جاتا ہے۔ لڑکیوں کی آواز میں فون کال کے ذریعے بھی لوگوں کو بلا کر یرغمال بنا لیا جاتا ہے۔

یہ رپورٹس بھی سامنے آتی رہی ہیں کہ ڈاکوؤں کے گروہوں میں خواتین بھی موجود ہیں جو موبائل فون کالز کے ذریعے لوگوں کو جھانسہ دیتی ہیں۔

رپورٹس کے مطابق ڈاکو لوگوں کو مختلف علاقوں سے اغوا کر کے کچے کے علاقے میں لے جاتے ہیں اور وہاں ان کو مغوی بنا کر رکھا جاتا ہے۔

ڈاکو یرغمال بنائے گئے شہریوں کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیتے ہیں جن ویڈیوز میں اکثر مغوی افراد کو باندھ بنا کر رکھنے اور تشدد کے مناظر ہوتے ہیں۔

اس طرح کی ویڈیوز میں مغوی مدد کے لیے پکارتے ہیں اور انہیں اپنے عزیزوں کو ڈاکوؤں کی شرائط ماننے کی درخواست کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔

ان ویڈیوز کے ذریعے مغوی افراد کے اہلِ خانہ سے بھنگ یعنی تاوان کی رقم مانگی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ ڈاکو مغوی افراد کے اہلِ خانہ کو براہ راست موبائل فون کال کے ذریعے پیسے دینے کے مطالبے بھی کرتے ہیں۔

جدید اسلحے کی نمائش

کچے کے ڈاکو سرے عام جدید اسلحے کی سوشل میڈیا کے ذریعے نمائش کرتے ہیں۔

ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا میں دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں جس کے دوران مشین گنیں، راکٹ لانچر اور دیگر اسلحہ دکھایا جاتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ڈاکو پولیس کو للکارتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں۔

’ترقیاتی کام نہیں، امن چاہیے‘

کشمور سے پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی کے رکن شبیر علی بجارانی کا کہنا ہے کہ کشمور میں امن امان کی صورتِ حال تشویش ناک ہے۔ شہری مطالبہ کر رہے ہیں کے انہیں ترقیاتی کام نہیں، امن چاہیے۔

شبیر علی بجارانی کا کہنا تھا کہ ڈاکوؤں کے ساتھ نچلے درجے کے پولیس اہل کار بھی ملے ہوئے ہیں۔

ان کے بقول یہ بات بھی درست ہے کہ اغوا ہونے والے شہری رقم کی ادائیگی کے بعد ہی ڈاکوؤں کے قبضے سے ریا ہوکر واپس آ سکتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شبیر علی بجارانی نے بتایا کہ ان کی اور شکارپور سے منتخب رکن قومی اسمبلی شہریار خان مہر کی وزیرِ اعلیٰ سندھ سے ملاقات ہوئی ہے۔ وزیرِ اعلیٰ مراد علی شاہ کو انہوں نے ضلع میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔

ان کے بقول وزیرِ اعلیٰ سندھ صوبائی وزیر داخلہ اور پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا گیاہے کہ ڈاکوؤں کے خلاف پولیس اور رینجرز کا مشترکہ آپریشن کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ڈاکوؤں کے پاس ایسا جدید اسلحہ موجود ہے جو پولیس کے پاس نہیں ہے۔ پولیس کو جدید اسلحہ دینے کے ساتھ تربیت بھی دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

جیکب آباد کے ڈسٹرکٹ چیئرمین گل محمد جکھرانی کا بھی کہنا تھا کہ جیکب آباد، شکارپور اور کشمور میں امن و امان کی صورتِ حال خراب ہے۔ ڈاکو جہاں موجود ہیں وہاں تک پولیس نہیں پہنچ سکتی۔ ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحہ ہے جب کہ ماضی میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشنز کامیاب نہیں ہو سکے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے گل محمد جکھرانی نے بھی اعتراف کیا کہ اغوا ہونے والے شہری ڈاکوؤں کو پیسے دینے کے بعد بازیاب ہوتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کے انہوں نے وزیرِ اعلیٰ سندھ سے ملاقات کی ہے جب کہ ڈاکوؤں کے خلاف گن شپ ہیلی کاپٹرز کے ذریعے آپریشن کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

’ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحہ افغانستان سے آ رہا ہے‘

پہلے سکھر ڈویژن پھر لاڑکانہ ڈویژن کے ڈی آئی جی پولیس رہنے والے اور کچھ روز قبل ڈی آئی جی میرپور خاص تعینات ہونے والے جاوید سونہارو جسکانی نے بتایا کہ شکارپور، کشمور، گھوٹکی اور سکھر کے کچے میں گندم اور دیگر فصلیں ہوتی ہیں۔

ان کے بقول ان فصلوں سے ہونے والی آمدنی کا بڑا حصہ کچے میں ڈاکوؤں کے سپورٹ سسٹم بنے لوگوں کے پاس جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحہ افغانستان سے آ رہا ہے۔

ان کے مطابق گھوٹکی کے قریب کچھ عرصہ قبل اسلحے سے بھری ایک گاڑی پکڑی گئی جس میں اسلحہ خیبر پختونخوا کی پولیس کا ایک حاضر سروس اہل کار لے کر جا رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکوؤں کو اسلحے کی رسد بند کرنی ہوگی۔

ڈی آئی جی جاوید سونہارو جسکانی کا کہنا تھا کہ موٹروے پر گاڑیوں کی چیکننگ نہیں ہوتی۔ اس مسئلے کو بھی دیکھنا ہوگا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے جاوید سونہارو جسکانی کا مزید کہنا تھا کہ ڈاکوؤں کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ایک جامع پالیسی اختیار کرنی ہوگی۔ جب تک اہل پولیس افسر فری ہینڈ کے ساتھ تعینات نہیں ہوں گے ڈاکوؤں کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ آپریشن ہونے کی اطلاعات پر ڈاکو علاقہ چھوڑ کرکہیں اور منتقل ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں ان کا پتا لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔ کچے میں پولیس چوکیاں قائم کرنی ہوں گی تاکہ پولیس کو ڈاکوؤں کی سرگرمی کے اطلاعات پر پہنچنے میں تاخیر نہ ہو۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کچے کی زمینوں سے قبضے ختم کرا کر زمین عام کسانوں کو دینی ہوں گی۔

ان کے مطابق ان علاقوں میں اسکول سسٹم اور بنیادی ڈھانچے کو بہتر کرنا ہوگا۔

ان کے بقول کچے کے علاقوں میں جو زیادہ لوگ مار دے وہ معتبر ہے، کی سوچ کو بھی بدلنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکوؤں کی دہشت کو کچھ لوگ کچے کی زمین پر قبضوں اور اپنی طاقت کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لوگ ڈاکو سسٹم کا خاتمہ نہیں چاہتے۔

جاوید جسکانی نے مزید بتایا کہ کچے کے ڈاکو ٹریکٹرز سے لے کر مختلف گاڑیاں سستے داموں پر دینے کی لالچ میں لوگوں کو بلا کر قید کرلیتے ہیں۔ انہوں نے چوکیاں قائم کر کے ایسے 170 لوگوں کو ڈاکوؤں کے پاس جانے سے بچایا۔ ڈاکو سوشل میڈیا کو ایک ٹول کے طور استعمال کر رہے ہیں۔

شکار پور میں کچھ روز قبل تعینات ہونے والے ایس ایس پی عرفان سموں کا کہنا تھا کہ شکار پور میں امن بحال کرنا ایک چیلنج ہے۔

ان کے بقول ڈاکوؤں کے خلاف مشترکہ آپریشن کیا جائے گا۔

عرفان سموں کا کہنا تھا کہ ڈاکو سوشل میڈیا اور موبائل فون کا استعمال کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے پی ٹی اے کو بھی لیٹر لکھنے کا سوچا جا رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG