رسائی کے لنکس

کیا افغانستان کے اندر کارروائیوں سے ٹی ٹی پی کے حملے روکے جا سکتے ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • مبصرین کے مطابق ٹی ٹی پی کی قیادت اور اس کے جنگجو افغانستان کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں۔
  • وائٹ ہاؤس نے بھی افغان طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی سر زمین کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہ بننے دیں۔
  • طالبان نے کابل میں ناظم الامور کو دفترِ خارجہ طلب کیا اور پاکستان کے حملوں پر احتجاج ریکارڈ کرایا۔

پاکستان کی جانب سے سرحد پار افغانستان میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور حافظ گل بہادر گروپ کے مبینہ ٹھکانوں پر حملے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہیں۔

افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کی حکومت نے پاکستان کے کابل میں ناظم الامور کو دفترِ خارجہ طلب کر کے اس معاملے پر احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔

طالبان کے مطابق پاکستان کے جنگی طیاروں کی بمباری سے خواتین اور بچوں سمیت آٹھ شہریوں کی اموات ہوئی ہیں۔

بعض مبصرین کے مطابق افغانستان کی حدود میں صوبہ خوست اور پکتیکا میں جن مقامات کو نشانہ بنایا گیا وہاں ٹی ٹی پی اور حافظ گل بہادر گروپ کے عسکریت پسندوں کے ٹھکانے موجود ہیں۔

امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قائم ’یونائیٹڈ اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف پیس‘ سے وابستہ ڈاکٹر اسفندیار میر کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک اور شبہے کی بات نہیں ہے کہ ٹی ٹی پی کی قیادت اور اس کے جنگجو افغانستان کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اسفندیار میر نے مزید کہا کہ یہی نہیں کہ وہ افغانستان میں مقیم ہیں بلکہ وہ ٹریننگ، ریکروٹمنٹ اور فنڈ بھی جمع کرتے ہیں جب کہ پاکستان کے خلاف محاذ افغانستان میں بیٹھ کر چلا رہے ہیں۔

پاکستان گزشتہ دو برس کے دوران طالبان حکومت کے ساتھ ٹی ٹی پی کے معاملات کو بارہا اٹھاتا رہا ہے۔ تاہم افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کی جانب سے کوئی کارروائی اس ضمن میں نہیں کی گئی۔ طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی کے مسئلے کو ہمیشہ پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے۔

اسفندیار میر کہتے ہیں کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی موجودگی کے خدشات درست ہیں جو کہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے سیاسی نظام کو پُرتشدد کارروائیوں کے ذریعے تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔

ان کے بقول اس سلسلے میں ٹی ٹی پی کو بعض افغان طالبان کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان آنے والے دنوں میں محاذ آرائی پر ڈاکٹر اسفندیار میر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے معاشی حالات اب قدرے بہتر ہو رہے ہیں۔

ان کے مطابق انتخابات کے بعد ایک نئی سیاسی قیادت سامنے آئی ہے جو کہ پاکستان کی سالمیت کے حوالے سے افغانستان کے ساتھ کسی بھی خطرناک ایکشن کے لیے عسکری اداروں کی مکمل طور پر معاونت کرے گی۔

واضح رہے کہ امریکہ بھی افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ دہشت گرد حملوں کے لیے افغان سر زمین استعمال نہ کریں۔

پیر کو پاکستانی فوج کے افغان حدود میں حملوں کے بعد وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرین ژاں پئیر نے پاکستان اور افغانستان کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی تاکید کے ساتھ اختلافات کو بات چیت کے ساتھ حل کرنے پر زور دیا ہے۔

پریس کانفرنس کے دوران وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرین ژاں پئیر نے افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان پر بھی زور دیا کہ وہ اپنی سر زمین کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہ بننے دیں۔

اسفندیار میر کے مطابق امریکہ کے بیان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے معاملے میں واشنگٹن ڈی سی اسلام آباد کے مؤقف کی تائید کرتا ہے کیوں کہ ٹی ٹی پی نہ صرف یہ کہ پاکستان بلکہ آنے والے وقتوں میں پورے خطے کے لیے خطرے کا سبب بن سکتی ہے۔

دوسری جانب افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ محاذ آرائی کو بڑھانا نہیں چاہتے۔

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ سے گفتگو میں ذبیح اللہ مجاہد نے واضح کیا کہ افغان وزارتِ دفاع کی جانب سے پاکستانی حملوں کے جواب میں صوبہ خوست، پکتیا اور پکتیکا سے متصل پاکستانی چوکیوں پر جوابی حملے ہوئے ہیں جس میں نقصانات بھی ہوئے ہیں۔

کیا پاکستان کے سیکیورٹی مسائل میں مزید اضافہ ہو گا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:49 0:00

پاکستان کے پیر کو کیے گئے فضائی حملوں کے جواب میں طالبان ترجمان نے بیان میں کہا تھا کہ پاکستان اپنے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکنے کے بجائے اپنے عوام کے سامنے افغانستان پر حملہ کرکے اپنی ناکامی کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے گزشتہ روز کی جانے والی فضائی حملوں کے باعث حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہو سکتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق فضائی کے دوسرے روز بھی سرحد کے دونوں اطراف فائرنگ کے تبادلہ ہوا ہے۔ تاہم جانی نقصان کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

پشاور یونیورسٹی میں شعبۂ ابلاغِ عامہ سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر سید عرفان اشرف کا کہنا ہے کہ شدت پسندی کے حوالے سے پاکستان کی حکمتِ عملی تغیرات کا شکار رہی ہے جس کی وجہ سے سرحد کے دونوں اطراف بد اعتمادی میں اضافہ ہوا ہے۔

ان کے بقول پاکستانی ریاست ٹی ٹی پی کے خلاف 2007 سے برسرِ پیکار ہے۔ اگر ماضی میں دیکھا جائے تو کبھی ان کے خلاف دہشت گرد کہہ کر ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے گئے تو کبھی وفود کے ذریعے ان کے ساتھ امن کی بحالی کے لیے مذاکرات کیے گئے۔

پروفیسر ڈاکٹر عرفان اشرف کا کہنا تھا کہ آپریشن ’ضربِ عضب‘ کے بعد دیکھا گیا کہ ٹی ٹی پی قیادت کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے سرحد پار دھکیل دیا گیا جہاں انہوں نے اپنے آپ کو چند سال بعد دوبارہ منظم کیا۔

ان کے مطابق 2022 میں دوبارہ سے ٹی ٹی پی کے ساتھ طالبان حکومت کی ثالثی میں ایک مرتبہ پھر مذاکرات شروع ہوئے۔ ان مذاکرات کے نام پر نہ صرف ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو رہا کیا گیا بلکہ پیسے بھی دیے گئے اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے حوالے سے بھی سفارشات مرتب کی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت عارضی جنگ بندی کا اعلان ہوا۔ لیکن بد قسمتی سے صورتِ حال ایک سال کے اندر اندر مزید کشیدہ ہو گئی جس کے بعد فریق ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہیں۔

اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی طالبان پر تنقید
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:45 0:00

پروفیسر ڈاکٹر عرفان اشرف کے مطابق ماضی کے واقعات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رہیں گی کیوں کہ اس سے قبل بھی اپریل 2022 میں مبینہ طور پر پاکستان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے مراکز پر سرحد پار حملے ہوئے تھے۔ لیکن اس کے باوجود ٹی ٹی پی کی جانب سے شدت پسندی کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اگر طاقت یا دباؤ کے ذریعے ٹی ٹی پی کی قیادت نے ہتھیار ڈالنے ہوتے تو وہ کب کے ڈال چکی ہوتی۔ لیکن شدت پسند تنظیموں کی بقا جنگ لڑنے میں ہوتی ہے جو کہ انہوں نے گزشتہ 20 سال سے جاری رکھی ہوئی ہے اور اسی لڑائی کے باعث نہ صرف سرحد پار بلکہ مقامی سطح پر بھی انہیں پذیرائی حاصل ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر عرفان اشرف کے مطابق ٹی ٹی پی کے مسئلے کو مذاکرات کے زریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے اب جب کہ پاکستان میں سویلین حکومت آ چکی ہے۔ تو دیکھنا ہو گا کہ وہ بات چیت بات چیت جاری رکھے گی اور کس مینڈیٹ کے ساتھ یہ بات چیت ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا افغانستان کے ساتھ 2600 کلومیٹر پر محیط طویل بارڈ ہے اور پاکستان جیسے ملک کے لیے محدود وسائل میں اتنی بڑی سرحد کو محفوظ بنانا خاصا مشکل ہو گا۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG