رسائی کے لنکس

شیخوپورہ: احمدی شخص کی تدفین رکوانے کا معاملہ، 'گاؤں والے ہمارے ساتھ تھے کچھ لوگوں نے اشتعال دلایا'


 فائل فوٹو
فائل فوٹو

پنجاب کے شہر شیخوپورہ میں مشتعل ہجوم کی جانب سے احمدی کمیونٹی کے شخص کی تدفین رکوانے کا معاملہ سوشل میڈیا پر موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔

تفصیلات کے مطابق 28 جنوری کو احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے فضل کریم کی وفات ہوئی جس پر اگلے روز اُنہیں تدفین کے لیے سہوالہ گاؤں کے قبرستان میں لایا گیا۔

پنجاب پولیس نے تصدیق کی ہے کہ مشتعل ہجوم نے مسلمانوں کے قبرستان میں احمدی کمیونٹی کے شخص کی تدفین رکوائی جس کے بعد احمدی کمیونٹی کے افراد کو بحفاظت وہاں سے نکال لیا گیا ہے۔

اُن کے بقول متوفی کے ورثا کی جانب سے کھودی گئی قبر بھی لوگوں نے مٹی ڈال کر بند کر دی۔

خیال رہے کہ احمدی کمیونٹی کے افراد خود کو مسلمان سمجھتے ہیں، تاہم پاکستان کا آئین انہیں غیر مسلم قرار دیتا ہے۔

اس حوالے سے مختلف ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد ایک قبر کو مٹی ڈال کر بند کر رہی ہے اور ساتھ ہی نعرے بازی بھی کی جا رہی ہے۔

ایک اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ قبرستان میں کھڑے ہیں جب کہ وہاں ڈی ایس پی، ایس ایچ او اور دیگر پولیس اہلکار بھی موجود ہیں۔

ترجمان شیخوپورہ پولیس کے مطابق قانون کے مطابق احمدی کمیونٹی کے افراد مسلمانوں کے قبرستان میں تدفین نہیں کر سکتے۔ تاہم احمدی کمیونٹی کا کہنا ہے کہ مذکورہ قبرستان میں احمدیوں کے لیے بھی ایک کنال اراضی مختص کی گئی ہے جب کہ وہاں دو احمدیوں کی قبریں بھی موجود ہیں۔

پاکستان: اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کون کرے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:26 0:00

'گاؤں والے ساتھ تھے لیکن پھر کچھ لوگوں نے اشتعال دلایا'

ترجمان احمدی کمیونٹی پاکستان عامر محمود کے مطابق فضل کریم کی تدفین کے لیے قبر کی کھدائی اور انتظام گاؤں کے غیر احمدیوں نے ہی کیا تھا۔

اُن کے بقول گاؤں والوں کی اکثریت ساتھ تھی اور کسی نے مخالفت نہیں کی تاہم حالات اس وقت خراب ہوئے جب گاؤں کا ایک مولوی وہاں علاقے میں آیا تو اس نے مخالفت شروع کر دی۔

عامر محمود کہتے ہیں کہ حالات مزید خراب کرتے ہوئے احمدی شہری کی تدفین کا اعلان کرنے والے کو بھی زدوکوب کیا گیا اس کے علاوہ موبائل فون کے ذریعے اردگرد کے علاقے کے لوگوں کو بھی بلایا گیا۔

اُن کے بقول کچھ ہی دیر میں لوگوں کی بڑی تعداد وہاں جمع ہو گئی جن کے پاس مبینہ طور پر کلہاڑیاں، ڈنڈے اور بعض کے پاس بندوقیں بھی تھیں۔

اُن کے بقول مشتعل ہجوم نے قبر کو دوبارہ مٹی سے بھرنا شروع کر دیا اور کنکریٹ کی سلیبز بھی توڑ دی گئیں جب کہ احمدی کمیونٹی کے لوگ بے بسی سے یہ سب دیکھتے رہے۔

واقعے کی اطلاع ملنے پر پولیس کی بھاری نفری چار گاڑیوں میں وہاں پہنچ گئی اور امن و امان کی صورتِ حال کے پیش نظر ورثا نے مشورے کے بعد پاکستان میں احمدیوں کے مرکز ربوہ (چناب نگر) میں تدفین کی۔

گزشتہ برس پنجاب میں احمدیہ کمیونٹی کے افراد کی تدفین روکنے کے تین واقعات رپورٹ ہوئے تھے جب کہ رواں برس پیش آنے والا یہ پہلا واقعہ ہے۔

اس سے پہلے سیالکوٹ کے علاقہ پیروچک، سرگودھا کے علاقہ چک 78 اور مظفر گڑھ کے علاقہ جتوئی میں ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں۔

جماعتِ احمدیہ کے ترجمان عامر محمود کہتے ہیں کہ تدفین روکنے کے ساتھ ساتھ احمدیوں کی قبروں سے کتبے ہٹانے جیسے واقعات بھی تواتر سے سامنے آ رہے ہیں۔

اُن کے بقول مقامی انتظامیہ اور پولیس کی نگرانی میں ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔

پاکستان میں احمدی عبادت گاہوں کو نقصان کیوں پہنچایا جا رہا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:19 0:00

'پولیس نے اپنا فرض پورا کیا'

واضح رہے کہ انتظامیہ کا یہ مؤقف رہا ہے کہ پاکستان کا آئین احمدیوں کی قبروں پر اسلامی کلمات یا عبارتیں لکھنے کی اجازت نہیں دیتا، لہذٰا ایسے واقعات کی روک تھام پولیس کا فرض ہے۔

شیخوپورہ پولیس کے ترجمان کہتے ہیں کہ سہوالہ میں پیش آنے والے واقعے میں بھی پولیس نے اپنا فرض نبھایا اور کسی بڑے تصادم سے علاقے کو بچا لیا۔

پاکستان میں عام انتخابات سے قبل وائس آف امریکہ کی جانب سے کرائے گئے سروے میں نوجوانوں کی بڑی اکثریت نے ووٹ دیتے ہوئے مذہبی آزادی اور آزادیٔ اظہارِ رائے کو بھی اہمیت دینے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔

پاکستان میں احمدی کمیونٹی کی جانب سے مذہبی آزادی نہ ملنے کی شکایات سامنے آتی رہتی ہیں۔ تاہم حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ پاکستان میں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو ملکی آئین کے مطابق مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG