رسائی کے لنکس

معذور افراد کے بہبود کے لیے ٹھوس اقدام کی ضرورت ہے: کرامت اللہ


حال ہی میں صوبہ بلوچستان میں معذور افراد کی ایک تنظیم نے اپنے حقوق کے لئے احتجاج کیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ حکومت معذور افراد سے کئے ہوئے اپنے وعدوں کو عملی شکل دے۔ اس سے پہلے بھی وقتاً فوقتاً خصوصی افراد کے طبقے اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے رہے ہیں۔

بلوچستان میں معذور افراد کی ایک تنظیم، ’ہوسٹ‘ کی منتظمہ کمیٹی کے ایک رُکن، کرامت اللہ نے 2011ء میں اس غیر سرکاری تنظیم کی بنیاد رکھی تھی، جو معذور افراد پر مشتمل ہے۔

کرامت اللہ نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو معذور افراد سے متعلق اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ بلوچستان میں معذور افراد کی بہتری کے لیے بل 2017 منظور کیا گیا تھا؛ ’’لیکن اب ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس بل کو عملی شکل دی جائے۔ اس میں روزگار کا جو کوٹہ ہے وہ پہلے 3فیصد تھا اب 5 فیصد ہوگیا ہے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ جو نوکریوں کا کوٹہ ہے ان کو اشتہار میں الگ الگ کیا جائے، تاکہ معذور افراد کو اپنے کوٹے کے بارے میں پتہ چل جائے۔ دوسرا یہ کہ جو خواتین معذور ہیں اور کام کرنے کے قابل نہیں یا کر نہیں سکتیں، ان کے لئے ماہوار وظیفہ مقرر کیا جائے‘‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’ہم نے حال ہی میں وزیر اعلیٰ بلوچستان سے درخواست کی تھی کہ ہمیں مکمل تعداد بتائی جائے کہ بلوچستان میں معذور افراد کی کیا تعداد ہے۔ جب مردو شماری ہو رہی تھی اس وقت ہم نے ایک باقاعدہ مہم چلائی تھی اور سپریم کورٹ میں اپنا کیس لے کر گئے تھے کہ سرکاری مردم شماری میں ہمیں شامل کیا جائے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’سپریم کورٹ نے ہمارے حق میں فیصلہ دیا۔ مگر بد قسمتی سے سرکاری اداروں نے اس طریقے سے ہمیں شمار نہیں کیا، جیسے ہونا چاہے تھا۔ اسلئے حکومت نے اس ڈیٹا کو ریلیز نہیں کیا۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ بلوچستان میں صحیح طریقے سے ہمیں شمار کیا جائے‘‘۔

دوسری طرف، زرغونہ ودود نے، جو معذور خواتین کے ایک گروپ ’ویمن بریکنگ بیرئیرز‘ کی رُکن ہیں، ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ بلوچستان میں میں نے آج تک نہیں دیکھا کہ معذور خواتین کے لئے کسی نے کچھ کیا ہو۔ ہمارے بنیادی حقوق ہمیں حاصل نہیں ہیں جو کہ ہر شہری کا حق ہیں‘‘۔

یاد رہے کہ زرغونہ کو حال ہی میں ’پارلیمانی کاکس‘ کی طرف سے ’خدیجتہ الکبریٰ ایوارڈ‘ سے نوازا گیا ہے۔

بلوچستان کے سوشل ویلفئر ڈیپارٹمنٹ کی ڈائریکٹر، مسرت جبین نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا ہےکہ ’’حکومت بلوچستان نے معذور افراد کی نئے سرے سے رجسٹریشن شروع کی ہے۔ ابھی تک ہمارے پاس جو رجسٹریشن کا ڈیٹا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ صوبے میں معذوروں کی تعداد تقریباً ساڑھے نو ہزار ہے‘‘۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ان کا جو بل منظور ہوا ہے اس میں نوکریوں کے لئے 2 سے 5 فیصد کوٹہ مختص کیا گیا ہے، کیونکہ سماجی بہبود کے محکمے نے چیف منسٹر سے درخواست کی تھی کہ ان سب کو گزارا الاؤنس دیا جائے، کیونکہ تمام لوگوں کو نوکریاں نہیں دی جا سکتیں۔ جو سہولیات پاکستان میں موجود نہیں ہیں ان کو دوسرے ممالک سے منگوا رہے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ’’ ہماری کوشش ہے کہ جو معذور بچے ہیں ان کو سکول میں لائیں۔ اور جو تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کو تعلیم دینگے اور جو ووکیشنل ٹریننگ حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کو جدید ہنر کی تربیت فراہم کریں گے‘‘۔

اس سوال کے جواب میں کہ حکومت ان اقدامات کو کب عملی شکل دے گی، ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے کام میں تھوڑا سا وقت تو لگتا ہے۔


XS
SM
MD
LG