|
صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو انتباہ کیا کہ اسرائیل کے بارے میں امریکی پالیسی کا انحصار غزہ میں شہریوں کے تحفظ پر ہے۔ ایک اسرائیلی حملے میں سات امدادی کارکنوں کی ہلاکت کے بعد یہ صدر کی جانب سے فوجی امداد پر ممکنہ شرائط کے حوالے سے اب تک کا سخت ترین اشارہ تھا۔
پیر کو امریکہ میں قائم ورلڈ سینٹرل کچن گروپ کے ملازمین کی ہلاکت کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم کو اپنی پہلی ٹیلی فون کال میں، صدر بائیڈن نے غزہ میں "ناقابل قبول" حملے اور انسانی ہمدردی کی وسیع تر صورت حال کے بعد "فوری جنگ بندی" کا بھی مطالبہ کیا۔
ڈیموکریٹ بائیڈن ایک انتخابی سال میں اسرائیل کی غزہ جنگ کی حمایت پر بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔ اتحادی ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اس بارے میں غور کریں کہ امریکہ کی جانب سے اپنے اہم ترین اتحادی کو ہر سال بھیجی جانے والی اربوں ڈالر کی فوجی امداد کے حوالے سے نیتن یاہو کو تحمل کی اپیلوں پر توجہ دینے پر مجبور کیا جائے۔
وائٹ ہاؤس نے کال کے ایک ریڈ آؤٹ میں کہا کہ بائیڈن نے "اسرائیل کو شہری نقصان، انسانی مصائب اور امدادی کارکنوں کے تحفظ سے نمٹنے کے لیے مخصوص، ٹھوس اور قابل پیمائش اقدامات کے سلسلے کا اعلان کرنے اور ان پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت کو واضح کر دیا" ہے۔
"انہوں نے واضح کیا کہ غزہ کے حوالے سے امریکی پالیسی کا تعین ان اقدامات پر اسرائیل کے فوری اقدام کے ہمارے جائزے سے ہو گا۔"
قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ امریکہ "آنے والے گھنٹوں اور دنوں" میں کارروائی دیکھنا چاہتا ہے جس میں غزہ کی امداد میں "ڈرامائی" اضافہ بھی شامل ہے، جہاں امریکہ نے ایک منڈلاتے ہوئے قحط سے خبردار کیا ہے۔
کربی نے تسلیم کیا کہ یہ کال نیتن یاہو کے ساتھ "بڑھتی ہوئی مایوسی" کے بعد ہوئی اگرچہ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے امریکہ کی حمایت غیر متزلزل ہے۔
جنگ کے آغاز کے بعد سے بائیڈن نے منگل کے اپنے سخت ترین بیان میں کہا کہ وہ اسرائیل کی طرف سے امریکی-کینیڈین شہری سمیت سات امدادی کارکنوں کی ہلاکت پر سخت برہم اور دل شکستہ ہیں۔"
اسرائیل نے کہا ہے کہ یہ ہلاکتیں غیر دانستہ طور پر ہوئی تھیں۔
لیکن بائیڈن کے الفاظ اربوں ڈالر کی اس فوجی امداد کو محدود کرنے کے لیے کسی قسم کے ٹھوس اقدامات سے مطابقت نہیں رکھتے جو واشنگٹن اپنے کلیدی اتحادی کو فراہم کرتا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ نے جمعرات کو رپورٹ کیا کہ بائیڈن انتظامیہ نے معمول کے کاروبار کی ایک علامت کے طور پر، اسی دن اسرائیل کو مزید ہزاروں بموں کی منتقلی کی منظوری دے دی جب اسرائیلی حملوں میں سات امدادی کارکن ہلاک ہوئے تھے۔
بہت سے ڈیموکریٹس کو ڈر ہے کہ یہ تضاد نومبر میں ریپبلکن ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف بائیڈن کے دوبارہ انتخاب کے امکانات کو نقصان پہنچا سکتا ہے، کیونکہ مسلمان اور نوجوان ووٹرز غزہ پر اپنے غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔
اوباما کی انتظامیہ میں ایک سابق نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر بین روڈس نے ایکس پر لکھا "امریکی حکومت اب بھی اسرائیل کی پالیسی کی مدد کے لیے 2 ہزار پاؤنڈ بم اور گولہ بارود فراہم کر رہی ہے۔"
انہوں نے لکھا "جب تک کوئی ٹھوس نتائج سامنے نہیں آتے، اس غم و غصے سے کچھ نہیں ہوتا۔ بی بی (نیتن یاہو) ظاہر ہے اس بارے میں پرواہ نہیں کرتے کہ امریکہ کیا کہتا ہے، وہ اس کی پرواہ کرتے ہیں کہ امریکہ کیا کرتا ہے۔
امریکی ووٹرز بھی تیزی سے اسرائیل کی غزہ جارحیت کے خلاف ہو رہے ہیں۔
27 مارچ کو جاری ہونے والے گیلپ سروے کے مطابق، 55 فیصد کی اکثریت اب اسرائیل کے اقدامات کو ناپسند کرتی ہے، جب کہ 36 فیصد اس کی حمایت کرتی ہے ۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔
فورم