رسائی کے لنکس

سرفراز بگٹی وزیرِ اعلیٰ بلوچستان منتخب؛ ’نئی حکومت کو پہاڑ جیسے مسائل کا سامنا ہے‘


سرفراز بگٹی ماضی کی گزشتہ دو صوبائی حکومتوں میں بھی وزیر رہے ہیں۔
سرفراز بگٹی ماضی کی گزشتہ دو صوبائی حکومتوں میں بھی وزیر رہے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی قیادت کی منظوری کے بعد پارٹی کے نومنتخب رکن صوبائی اسمبلی میر سرفراز احمد بگٹی بلوچستان کے بلا مقابلہ وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئے ہیں۔

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے 47 سالہ سرفراز بگٹی اس سے قبل بھی بلوچستان اور وفاق میں وزیر رہے ہیں۔

مبصرین کا خیال ہے کہ سرفراز بگٹی اور ان کی کابینہ کو آئندہ پانچ برسوں کے دوران اہم چیلنجز کا سامنا رہے گا۔ بالخصوص صوبے میں جاری امن و امان کی خراب صورتِ حال نئی حکومت کے لیے بڑا مسئلہ ہو گا۔

آٹھ فروری کے عام انتخابات کے بعد 29 فروری کو بلوچستان کے نومنتخب ارکانِ اسمبلی نے بلوچستان اسمبلی میں حلف لیا تھا۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادی جماعتوں نے اس بار وزیرِ اعلیٰ کی نامزدگی کو انتہائی خفیہ رکھا تھا۔

پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی آخری وقت تک حال ہی میں اپنی جماعت میں شامل ہونے والے سابق صوبائی وزیر ظہور بلیدی کو وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کے لیے فیورٹ قرار دے رہے تھے۔

ظہور بلیدی بھی آخری وقت تک یہ سمجھتے رہے کہ پارٹی نے اہم عہدے کے لیے ان کا نام فائنل کر دیا گیا ہے۔ تاہم جمعے کو اچانک سرفراز بگٹی کوئٹہ پہنچے اور پارٹی کے صوبائی صدر اور سینئر اراکین اسمبلی کے ہمراہ وزرات اعلیٰ کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے۔

میر سرفراز بگٹی کے مقابلے میں کسی بھی رکن اسمبلی نے بلوچستان کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے مقررہ وقت تک کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے تھے۔

تاہم قواعد کے مطابق ہفتے کو ایوان میں وزارتِ اعلیٰ کے لیے رائے شماری کی گئی جس میں 41 ارکان نے سرفراز بگٹی کے حق میں ووٹ دیا جن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور دیگر کے ووٹ بھی شامل تھے۔

سابق وزیرِ اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سمیت نیشنل پارٹی کے چار ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا جب کہ جے یو آئی (ف) کے اراکینِ اسمبلی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔

سرفراز بگٹی کا سیاسی سفر

بلوچستان کے نومنتخب وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی قبائلی سیاسی رہنما چیف آف بگٹی میر غلام قادر بگٹی کے بیٹے ہیں۔ انہوں نے لارنس کالج مری سے اپنی تعلیم مکمل کی۔

میر سر فراز بگٹی کے والد نے 1988 میں پیپلز پارٹی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی اور اپنی تمام زندگی پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست کی۔ میر غلام قادر بگٹی سابق فوجی حکمراں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور میں پیپلز پارٹی سے رفاقت کے باعث زیر عتاب بھی رہے۔

میر سرفراز بگٹی 2013 میں پہلی بار بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر عبد المالک بلوچ اور نواب ثناء اللہ زہری کی حکومتوں میں وزیر داخلہ رہے۔

سرفراز بگٹی پر دہشت گردی کے متعدد حملے بھی ہو چکے ہیں جن میں وہ محفوظ رہے ہیں۔

انہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں میں بھی حصہ لیا لیکن کامیاب نہ ہو سکے جس کے بعد 2018 اور 2021 میں وہ بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کی جانب سے سینیٹر منتخب ہوئے۔

سرفراز بگٹی 2023 میں بننے والی نگراں وفاقی کابینہ میں وفاقی وزیر داخلہ رہے۔ عام انتخابات کے انعقاد سے کچھ ہی عرصہ قبل انہوں نے نگران کابینہ سے استعفی دے کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔

امکانات اور خدشات

بلوچستان میں گزشتہ تین دہائیوں سے شورش جاری ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اس شورش کے کئی پیچیدہ سیاسی، معاشی اور سماجی عوامل ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ صوبے کو درپیش امن و امان کے چیلنجز بھی مزید گنجلک ہو گئے ہیں۔ بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے ساتھ ساتھ صوبے میں مذہبی گروپس کی جانب سے مسلح کارروائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ فورسز اور علیحدگی پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔

نو منتخب وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی فورسز پر ایسے حملوں کے خلاف ماضی میں بھی بلوچ کالعدم علیحدگی پسند تنظیموں کو شدید تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔

بلوچستان کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار رشید بلوچ کے مطابق بلوچستان میں امن و امان کی صورتِ حال ابتر ہے۔

ان کے بقول صوبے میں بننے والی نئی حکومت سے امن و امان کی صورتِ حال میں بہتری کا امکان کم اور چیلنجز بڑھنے کے خدشات زیادہ ہیں۔

صحافی دھنی بخش مگسی کے مطابق میر فراز بگٹی کے والد غلام قادر بگٹی ان کے اچھے دوست تھے۔ ان کے بقول سرفراز بگٹی بلوچستان اور اسلام آباد کے درمیان دوریاں کم کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔

صوبائی حکومت کے چیلنجز

بلوچستان کے شعبہ بین الاقوامی امور کے پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد بڑیچ سمجھتے ہیں کہ نومنتخب وزیرِ اعلیٰ اور ان کی کابینہ کو امن و امان کے علاوہ کئی دیگر چیلنجز کا بھی سامنا ہو گا جن میں بے روزگاری سرِ فہرست ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بے روزگاری کی شرح پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔ 23-2022 کے اقتصادی سروے کے مطابق، بلوچستان میں بے روزگاری کی شرح 10 فی صد سے زائد ہے۔

ڈاکٹر دوست محمد کے مطابق بلوچستان کی سرحد ایران اور افغانستان سے ملتی ہے۔ ان ممالک کے ساتھ تجارت بلوچستان کی معیشت کے لیے اہم ہے۔ تاہم سرحدی تجارت میں بہت سی رکاوٹیں ہیں جن کو دور کرکے بارڈر ٹریڈ کے ذریعے لوگوں کو روزگار فراہم کیا جا سکتا ہے۔

انہوں ںے کہا کہ بلوچستان موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ صوبے میں بارشوں کا پیٹرن بدل رہا ہے جس سے سیلاب اور خشک سالی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے زراعت اور پانی کی فراہمی بھی متاثر ہو رہی ہے جو ایک بڑا چیلنج ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں صحت اور تعلیم کے اشاریے پاکستان میں سب سے کم ہیں۔ صوبے میں ڈاکٹروں اور اساتذہ کی کمی ہے اور بنیادی صحت اور تعلیمی سہولتوں تک رسائی محدود ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ صوبے کو غربت، بدعنوان اور قبائلی تنازعات جیسے پہاڑ جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG