رسائی کے لنکس

پاکستان میں کرونا وائرس کہاں سے آیا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

کراچی کی ڈاؤ یونیورسٹی میں سائنس دان یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان میں حملہ آور ہونے والے کرونا وائرس کا تعلق کس علاقے سے ہے اور اس وائرس کی خصوصیات کیا ہیں۔ یہ معلومات حاصل ہونے کے بعد ماہرین کو اس پر قابو پانے میں مدد مل سکے گی۔

سرجن ڈاکٹر سعید قریشی، وائس چانسلر ڈاؤ یونیورسٹی کراچی
سرجن ڈاکٹر سعید قریشی، وائس چانسلر ڈاؤ یونیورسٹی کراچی

وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹر ویو میں ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر سرجن ڈاکٹر سعید قریشی نے بتایا کہ یونیورسٹی کے بائیو ٹیکنالوجسٹس کرونا وائرس پر کنٹرول کے سلسلے میں پلازما تھیراپی پرکام کر رہے ہیں اور یہ ریسرچ کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کے مالیکیولر پتھالوجی کے شعبے نےکوویڈ 19 کا آر این اے، جو اس کا جینیاتی خاکہ ہے، کراچی یونیورسٹی کے جین کی تحقیق سے متعلق شعبے کو فراہم کر دیا ہے، جہاں اس کی جینومنگ سیکونس پر تحقیق کی جا رہی ہے۔ جس سے یہ جاننے میں مدد مل سکے گی کہ پاکستان پر حملہ کرنے والے وائرس کا جنیاتی نقشہ دنیا کے کس حصے میں پائے جانے والے کرونا وائرس سے ملتا ہے۔ اور یہ کہ یہ وائرس کتنا مہلک ہے اور اس پر کنٹرول کے لیے کیا طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈاؤ یونیورسٹی سندھ حکومت کے تحت ہے اور یہ ان اداروں میں شامل ہے جسے ابتدا ہی سے کرونا کے معاملے میں آئسولیشن کا ایک مرکز قرار دیا گیا تھا۔ کیونکہ اس ادارے میں مالیکیولر پیتھالوجی کی سہولت دستیاب ہے۔

ڈاکٹر سعید قریشی نے بتایا کہ اس سینٹر میں شروع ہی سے ٹیسٹنگ ہو رہی ہے۔ یہاں آنے والوں میں سے جسے اسپتال میں داخل کرانے کی ضرورت ہوتی ہے، اسے وہاں بھیج دیا جاتا تھا اور جس کی حالت تشویش ناک ہوتی ہے، اسے آئی سی یو میں ریفر کر دیا جاتا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ سندھ میں وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ اور مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر سندھ حکومت نے ایکسپو سینٹر میں ایک بہت بڑا آئسولیشن سینٹر قائم کیا ہے اور ہدایت کی گئی ہے کہ جس مریض کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہو، اسے ڈاؤ یونیورسٹی اسپتال منتقل کر دیا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ ادارے میں اب تک 9 مریض بھیجے گئے ہیں جن میں سے ایک صحت یاب ہو کر جا چکا ہے جب کہ ایک اور مریض جانبر نہیں ہو سکا جسے انتہائی تشویشناک حالت میں داخل کرایا گیا تھا۔

دنیا بھر میں کرونا وائرس میں مبتلا افراد کے علاج کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں۔ ڈاؤ یونیورسٹی اسپتال کی بات کرتے ہوئے ڈاکٹر سعید قریشی کا کہنا تھا کہ یہاں ایرو تھرومائی سین، ہائیڈرووکسی کلوروکوئین اور ٹیلی ٹراکور جیسی ادویات کے اثرات پر نظر رکھی جا رہی ہے اور یہ دیکھا جا رہا ہے کہ آیا دواؤں کا استعمال بہتر ہے یا مریض کو آئسویشن میں رکھنا زیادہ فائدہ مند ہے۔

XS
SM
MD
LG