رسائی کے لنکس

لانگ مارچ یا لانگ فلائٹ


ڈاکٹر طاہر القادری (فائل فوٹو)
ڈاکٹر طاہر القادری (فائل فوٹو)

آج کل پاکستانی سیاست میں ایک ہی شخصیت پر بحث ہو رہی ہے۔ یہ شخصیت ہیں کینیڈا سے واپس آنے والے ڈاکٹر طاہر القادری۔

آج کل پاکستانی سیاست میں ایک ہی شخصیت پر بحث ہو رہی ہے۔ یہ شخصیت ہیں کینیڈا سے واپس آنے والے ڈاکٹر طاہر القادری۔ جو آئے، ایک جلسہ کیا اور مطالبہ کیا کہ عام انتخابات سے پہلے الیکشن اصلاحات اور نگران حکومت کی تشکیل میں فوج اور عدلیہ کے رائے بھی شامل کی جائے۔

اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں 14 جنوری کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کردیا۔

پھر کیا تھا, حکومت سے اکثر ناراض رہنے والی اتحادی جماعت ایم کیو ایم نے ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ اس لانگ مارچ میں شریک ہونے کا اعلان کر دیا۔ اور یہیں سے یہ خبر مزید بڑی ہو گئی اور ساتھ ہی مختلف سوالات بھی اٹھنا شروع ہو گئے۔ کیونکہ ایم کیو ایم کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ اسے اسٹبلشمنٹ کی حمایت حاصل رہی ہے ۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایم کیو ایم گزشتہ پندرہ سال سے حکومت کا حصہ رہی ہے۔ چاہے وہ حکومت جمہوری تھی یا باوردی صدر پرویز مشرف کی۔


پاکستان تحریک انصاف نے ڈاکٹر صاحب کے ظاہری ایجنڈے کی تائید کی لیکن چند دن بعد صاف صاف کہہ دیا کہ وہ کسی ایسے جلسے میں شامل نہیں ہوں گے جو جمہوریت کے لیے خطرہ ثابت ہو۔

عمران خان اور اسٹبلشمنٹ کے تعلقات کا ذکر بھی اس دن سے ہو رہا ہے جب سے عمران خان نے لاہور میں جلسہ کیا اور دکھایا کہ ان کی مقبولیت ماضی کے مقابلے میں بہت بڑھ چکی ہے۔

مسلم لیگ نواز، عمران خان صاحب کی جماعت کی مقبولیت کو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شجاع پاشا کی کوششوں سے جوڑتی ہے۔ یاد رہے کہ حالیہ سالوں میں مسلم لیگ نواز نے اینٹی اسٹبلشمنٹ جماعت کے طور پر اپنی شناخت بنائی ہے اور عمران خان کی زیادہ تر تنقید میں حکومت کے بجائے اپوزیشن کا ذکر ہوتا تھا۔


واپس ڈاکٹر صاحب اور ان کے لانگ مارچ کی طرف آتے ہیں۔

نائن زیرو پر ڈاکٹر صاحب کی آمد اور ایم کیو ایم کا جلسہ۔ ق لیگ کے چوہدھری پرویز الہیٰ کی ڈاکٹر صاحب سے ملاقات پہلے لانگ مارچ میں شرکت کا اعلان پھر انکار۔ اور اب ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے بھی صدر زرداری سے ٹیلیفون پر بات کر کے انہیں یہ یقین دلایا ہے کہ ان کی جماعت کسی ایسے عمل میں شامل نہیں ہوگی جس سے جمہوریت کو خطرہ ہو۔

ایم کیو ایم ایک بار پھر خود کو اکیلا محسوس کرتی ہے۔ کیونکہ اتحادی ہونے کے باوجود اسے کراچی شہر میں پی پی پی اور اے این پی سے خطرہ ہے۔ بلدیاتی نظام پر سندھ بھر میں مخالفت اور احتجاج کے باعث پی پی پی شائد یہ نظام منسوخ کر دے۔

دوسری طرف دفاع پاکستان کونسل، ایم کیو ایم حقیقی، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ن کراچی میں ایم کیو ایم مخالف اتحاد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو توہینِ عدالت کے الزام میں 7 جنوری کو سپریم کورٹ میں پیش ہونے کا نوٹس جاری ہو چکا ہے۔


ایم کیو ایم اور ق لیگ نے اتحادی ہونے کے باوجود پی پی پی کے خلاف لانگ مارچ میں شامل ہونے کا اعلان کر کے صدر آصف علی زرداری کو پیغام بھیجا کہ الیکشن بارگینگ کیسے ہوگی۔

سابق اتحادی اور ناراض جماعت جے یو آئی (ایف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بھی ڈاکٹر صاحب پر الیکشن میں تاخیر کروانے کا الزام لگاتے ہیں۔

فوج نے واضح اشارہ دیا ہے کہ وہ جمہوریت کی حمایت جاری رکھے گی۔ اور الیکشن کمیشن کے پاس وہ اختیارات پہلے ہی موجود ہیں جن کو بنیاد بنا کر ڈاکٹر صاحب نے امیدواروں کے کردار سے متعلق آئین کی شک کا ذکر کیا ہے۔

ایک ہفتے سے زائد جاری اس بحث سے خود کو دور رکھے ہوئے ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف نے بھی خاموشی توڑی اور کہا کہ ڈاکٹر طاہر القادری انتخابی عمل میں خلل ڈالنے آئے ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میاں صاحب بھی دس سال باہر گزار کر آئے انہیں تو کوئی نہیں پوچھتا۔

اب سوال و جواب کا سلسلہ یہیں سے شروع ہوتا ہے کہ میاں صاحب نے بھی تو دس سال باہر گزارے۔ جی ہاں گزارے لیکن جنرل مشرف نے ان کی حکومت فوج کی طاقت سے گرا کر ایک معاہدے کے ذریعے ان کو اور ان کے خاندان کو ملک بدر کیا گیا تھا۔ اور جناب شیخ السلام ڈاکٹر طاہر القادری جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں شامل تھے۔

جنرل مشرف بھی 7 جنوری کو کراچی میں اپنی پارٹی کارکنان سے خطاب کریں گے اور اپنے واپس آنے کی تاریخ کا اعلان کریں گے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ تاریخ 14 جنوری سے پہلے ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مشرف صاحب ایک بار پھر اپنا ارادہ بدل دیں یا انہیں کہا جائے کہ وہ نہ آئیں۔ یاد رہے کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف بے نظیر قتل کیس میں پاکستانی عدالت سے وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں۔ یعنی جنرل صاحب پاکستان آتے ہی گرفتار کر لیے جائیں گے۔

علمائے کونسل پاکستان بھی ڈاکٹر صاحب کے جلسے اور لانگ مارچ پر وہ سوال اٹھا رہی ہے جو پاکستان کی زیادہ تر سیاسی جماعتوں کے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کی جماعت اس وقت لانگ مارچ کے لیے چندہ اکٹھا کرنے اور انتظامات میں مصروف ہے۔ اگر معاملات میں یکدم کوئی تبدیلی نہیں آتی تو ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کی تحریک منہاج القرآن کو اکیلے ہی یہ مارچ کرنا پڑے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ڈاکٹر طاہرالقادری یہ لانگ مارچ کریں گے یا پھر ایم کیو ایم ق لیگ اور بڑی مذہبی جماعتوں کی عدم شرکت اور مخالفت کے باعث لانگ مارچ ترک کر کے کینیڈا کی فلائٹ لیں گے۔
XS
SM
MD
LG