رسائی کے لنکس

قائمہ کمیٹی اور ایچ ای سی کے سربراہان نے اختیارات سے تجاوز کیا


قائمہ کمیٹی اور ایچ ای سی کے سربراہان نے اختیارات سے تجاوز کیا
قائمہ کمیٹی اور ایچ ای سی کے سربراہان نے اختیارات سے تجاوز کیا

وفاقی وزیر تعلیم سردار آصف احمد علی نے کہا ہے کہ حکومت قانون سازوں کی جعلی ڈگریوں کے معاملے پر عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمل درآمد کا عزم رکھتی ہے لیکن تعلیم پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی یا اعلیٰ تعلیمی کمیشن ”ایچ ای سی“ کو اس ضمن میں یہ اختیار نہیں دیا جائے گا کہ وہ اپنی من مانی کریں۔

دارالحکومت اسلام آباد میں ایک تقریب کے موقع پر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ پارلیمانی نظام حکومت میں عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کے الگ الگ اختیارات متعین ہیں اور کوئی کسی کے دائرہ اختیار میں دخل اندازی نہیں کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایچ ای سی وزارت تعلیم کا ماتحت ادارہ ہے اور انھوں نے الزام عائد کیا کہ اس کے سربراہ جاوید لغاری ڈگریوں کے معاملے پر اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کر رہے تھے۔

وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ جعلی ڈگریوں کے معاملے پر وزارت تعلیم اور وزارت قانون مشاورت کے بعد مستقبل میں اس بارے میں کارروائی کے لیے لائحہ عمل مرتب کریں گی اور ان کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے چیئر مین عابد شیر علی کو اس معاملے پر کسی قسم کے احکامات جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ سردار آصف احمد علی کا کہنا تھا کہ اعلی تعلیمی کمیشن اگرچے ایک خودمختار ادارہ ہے لیکن اس کی مجاز اتھارٹی وزیراعظم اور ورازت تعلیم ہیں اور یہ کہ کمیشن کے معاملات پر وہ خود پارلیمان اور اس کی قائمہ کمیٹی کے سامنے جواب دیں گے۔

ان کا کہنا تھا " اگر کمیشن کے چیئرمین میڈیا کے ہیرو بننا چاہتے ہیں تو وہ اپنےعہدے سے استعفٰی دے کر یہ کام کریں"

وزیر تعلیم نے اس تصور کو بھی مسترد کیا کہ حکومت پاکستان قانون سازوں کی جعلی ڈگریوں کے معاملے کو التوا میں ڈالنا چاہتی ہے اور کہا کہ حکومت کو اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے "لیکن جو بھی کاروائی کی جائے گی وہ قانون کے دائرے میں رہ کر کی جائے گی" ۔

ادھر تعلیم کی قائمہ کمیٹی کے چیرمین اور مسلم لیگ ن کے ایک رہنماء عابد شیر علی نے لندن سے ایک مقامی ٹیلی وژن سے باتیں کرتے ہوئے وزیر تعلیم پر الزام عائد کیا کہ وہ ڈگریوں کے معاملے کو ایک سیاسی تنازعہ بنا کے ڈگریوں کی شفاف جانچ پڑتال میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔

ان کا کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے وقار کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ ان ممبران کو قانون کا مطابق سزا دی جائے جو دھوکہ دہی سے جعلی دستاویز کی بنیاد پر رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔

حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک حکم کی روشنی میں اعلی تعلیمی کمیشن کو یہ کام سونپا گیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی تعلیمی اسناد کی جانچ پڑتال کرے اور یہ کہ جن کے پاس جعلی اسناد پائی گئیں ان کے خلاف عدالتوں میں مقدمات بھی چلائےجا سکتے ہیں۔

جعلی ڈگریاں رکھنے پر مجبورا اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے والوں میں اگرچے مختلف جماعتوں کے رہنما شامل ہیں لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ حکمران پیپلز پارٹی اس معاملے کو دبانے کے لیے متعلقہ اداروں پر دباؤ ڈال رہی ہے اور ان کے مطابق حال ہے میں اعلی تعلیمی کمیشن کے بھائی فاروق لغاری کی بدعنوانی کے الزام میں گرفتاری اور پھر رہائی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔

قائمہ کمیٹی نے جانچ پڑتال کے لیے کمیشن کو جو ڈگریاں بجھوائی تھیں ان میں سے چالیس کے قریب نقلی قرار دے دی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG