رسائی کے لنکس

جرمنی: تارکین وطن پر روزانہ دس حملے ہوتے رہے


تارکین وطن کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف بھی جرمنی میں لوگوں نے مظاہرے کیے۔
تارکین وطن کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف بھی جرمنی میں لوگوں نے مظاہرے کیے۔

تارکین وطن کے خلاف 3500 سے زائد حملے دیکھنے میں آئے جن میں 43 بچوں سمیت 560 افراد زخمی ہوئے۔

جرمنی میں حکام کی طرف سے جاری کیے گئے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ گزشتہ سال پناہ گزینوں اور پناہ کے متلاشیوں پر روزانہ لگ بھگ دس حملے کیے جاتے رہے۔

وزارت داخلہ کے حکام نے پولیس کے ریکارڈ سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر بتایا کہ 2016ء میں تارکین وطن کے خلاف 3500 سے زائد حملے دیکھنے میں آئے جن میں 43 بچوں سمیت 560 افراد زخمی ہوئے۔

اعداد و شمار پارلیمان میں بائیں بازو کی جماعت ڈائی لنک کی اولا یکتے کی طرف سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں جاری کیے گئے۔

جرمن حکومت کا کہنا تھا کہ وہ تشدد کی "شدید مذمت" کرتی ہے۔

وزارت داخلہ نے ایک خط میں کہا کہ "اپنا وطن چھوڑ کر جرمنی میں تحفظ کے لیے کوشاں لوگوں کا یہ حق ہے کہ وہ یہ توقع کریں کہ یہاں انھیں سلامتی کے ساتھ رکھا جائے گا۔"

خط میں وزارت کا مزید کہنا تھا کہ معاشرے اور سیاست میں ہر کسی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے حملے کرنے والوں کی مخالفت کریں۔

گزشتہ دو سالوں کے دوران جرمنی میں بڑی تعداد میں تارکین وطن کی آمد سے یہاں اجنبیوں کے خلاف نفرت میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا اور مختلف علاقوں میں تارکین وطن پر مقامی آبادی کی طرف سے غصے کا اظہار اور تشدد بھی سامنے آیا۔

2015ء میں جرمنی میں دائیں بازو کے حامیوں کی طرف سے 1408 ایسے حملے کیے گئے جن میں گزشتہ سال 42 فیصد جب کہ پناہ گزینوں کی آبادیوں پر ہونے والے 75 آتشزنی کے واقعات میں بھی گزشتہ سال پانچ فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

2015ء میں جرمنی میں دس لاکھ سے زائد پناہ گزینوں کو آباد کرنے کی پالیسی پر آنگیلا مرکل کو مخالف جماعتوں کو خاص طور پر ملک کے مشرقی حصوں میں خاصی مقبولیت ملی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ رواں سال ستمبر میں ہونے والے انتخابات میں بھی یہ معاملہ اثر انداز ہو سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG