رسائی کے لنکس

قبائلی علاقے میں انسانی حقوق کی تنظیم کا عہدیدار قتل


پاکستان میں انسانی حقوق کی علمبردار ایک بڑی تنظیم نے اپنے ایک سینیئر کارکن کے ’’بھیانک اور افسوس ناک‘‘ قتل کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے اس جرم کے مرتکب افراد کو گرفتار کرنے اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو درپیش خطرات سے محفوظ رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ملک کے شمال مغربی قبائلی علاقے، خیبر ایجنسی، میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے رابطہ کار زرطیف آفریدی کوجمعرات کے روز نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔ مقتول کے اہل خانہ نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ اس قتل میں طالبان شدت پسند ملوث ہیں۔

’’ایج آرسی پی کو زرطیف آفریدی کے قتل پر شدید دکھ ہے۔ ان کی موت کے باعث سول سوسائٹی انسانی حقوق کی جدوجہد کرنے والے ایک پُرعزم ساتھی سے محروم ہو گئی ہے۔‘‘

تنظیم نے کہا ہے کہ قتل کے اس واقعہ سے پاکستان، بالخصوص قبائلی علاقہ جات میں انسانی حقوق کے کارکنوں کو درپیش بڑھتے ہوئے خطرات کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ’’ایچ آرسی پی کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ زرطیف آفریدی کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کی اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرے اور مستقبل میں انسانی حقوق کے کارکنوں کو تحفظ فراہم کرنے لیے عملی قدم اٹھائے۔‘‘

ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ڈائریکٹر آئی اے رحمن
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ڈائریکٹر آئی اے رحمن

ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ڈائریکٹر آئی اے رحمن کا کہنا ہے کہ زرطیف آفریدی گزشتہ بیس برسوں سے حقوق انسانی کمیشن پاکستان کے لیے ایک خطرناک علاقے میں اپنی مرضی سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ ’’زرطیف آفریدی جس کو آج صبح مارا گیا ہے اسے مذہبی انتہا پسندوں کی طرف سے کئی مرتبہ دھمکیاں دی گئیں لیکن وہ (زرطیف) ڈٹا رہا۔‘‘

زرطیف آفریدی کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے آئی اے رحمٰن نے بتایا کہ اُنھوں نے اپنے معمول کے کام کے ساتھ ساتھ علاقے کے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے 32 لاکھ روپے بھی جمع کیے تھے۔

XS
SM
MD
LG