رسائی کے لنکس

موجودہ دور میں صحافت ایک پر خطر کام


نوجوان صحافی ولی بابر کو 2011 میں ہلاک کر دیا گیا۔ فائل فوٹو
نوجوان صحافی ولی بابر کو 2011 میں ہلاک کر دیا گیا۔ فائل فوٹو

پاکستان کا شمار بھی صحافیوں کے لیے خطرناک ترین تصور کیے جانے والے ملکوں میں ہوتا ہے اور گذشتہ ایک دہائی میں درجنوں صحافی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے مارے جا چکے ہیں۔

دنیا بھر میں صحافی اور میڈیا کے کارکنوں کو اپنے فرائض انجام دہی کے دوران مختلف خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کا کام سچائی اور حقائق کو عوام تک لانا ہوتا ہے بعض اوقات سچائی اور حقائق کو سامنے لاتے ہوئے ان کی جانیں بھی چلی جاتی ہیں۔جبکہ بعض ترقی پذیر ممالک میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی قتل کیا گیا ہے۔

ایک بین الاقوامی ادارے انٹرنیشنل نیوز سیفٹی انسٹیٹیوٹ کے ٕ مطابق 2016 میں 3 خواتین سمیت 112 صحافیوں کو قتل کیا گیا تھا جبکہ 2015 میں 101 صحافیوں کو قتل کیا گیا تھا جن میں 10 خواتین بھی شامل تھیں ۔ تاہم 2017 میں 9 خواتین سمیت 68 صحافیوں اور میڈیا نمائندوں کو قتل کیا گیا ۔

آئی این ایس آئی کے مطابق رواں سال میں صحافیوں کے لئے جو خطرناک ترین ممالک تھے ان میں افغانستان،میکسیکو،عراق۔شام اور فلسطین شامل ہیں۔

اگر ہم بات کریں پاکستان کی تو ہمارے ملک پاکستان کا شمار بھی صحافیوں کے لیے خطرناک ترین تصور کیے جانے والے ملکوں میں ہوتا ہے اور گذشتہ ایک دہائی میں درجنوں صحافی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے مارے جا چکے ہیں۔ تجزیہ نگار اور کالم نگار رضا رومی نے وائس اف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے مختلف خطوں میں خواہ وہاں جنگ ہو یا امن ، دونوں حالتوں میں صحافت خطرے میں ہے اور صحافی نشانہ بن رہے ہیں اور اس کی بنیادی وجوہات یہ ہیں کہ صحافی کا کام ہوتاہے حقائق کو عوام تک لانا ۔ اس کے لئے مقتدر لوگو ں یا اداروں کو جوابد ہ ہونا پڑتا ہے جو حکمران یا صاحب اقتدار طبقوں کو پسند نہیں آتا ۔ وہ اس چیز سے خائف ہوتے ہیں اور اسکی وجہ سے صحافیوں پر پے در پے حملے ہوتے ہیں ۔

رضا رومی کا مزید کہنا تھا کہ اگر آپ ہمارے خطے پاکستان کو دیکھں تو جہاں پر کشیدگی ہے مثلا فاٹا یا بلوچستان ،وہاں پر تو صحافی ہر طرف سے خطروں کی زد میں ہیں ۔نہ صرف ان کو ریاستی ادارے دھمکاتے ہیں بلکہ جو غیر سرکاری ادارے ہیں جیسے کہ دہشت گرد ،یا علیحدگی پسند ، وہ بھی دھمکاتے ہیں ۔ان کو اخبارات شاع کرنے سے بھی منع کرتے ہے۔

اس کی روک تھام کے لئے رضارومی کا کہنا تھا کہ میڈیا اداروں کو چاہئے کہ وہ صحافیوں کہ بہتر فنی تربیت کے ساتھ انہیں سیکیورٹی فراہم کریں۔ ان کی حفاظت کا معقول انتظام ہونا چاہئے اور ایڈیٹر پر بھی منحصر ہیں کہ ایسی سٹوری اپنے ساتھی کو نہ دیں جس سے ان کی جان کو خطرہ ہو۔

انسانی حقوق اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی مقامی و بین الاقوامی تنظمیں یہ مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے موثر اقدام کیے جائیں اور صحافتی شعبے سے وابستہ افراد پر حملوں میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کو بھی یقینی بنایا جائے۔

حکومتی عہدیداران کا کہنا ہے کہ وہ صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں سے مشاورت کے ساتھ ایسے اقدام کر رہے ہیں کہ جس سے اس پیشے سے وابستہ افراد کے تحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ان کی بہبود کے لیے بھی کام ہو سکے۔

XS
SM
MD
LG