رسائی کے لنکس

حریری قتل کیس میں ممکنہ پیش رفت پر لبنان میں تشویش


لبنان کے یوم آزادی کے موقع پر صدر اور وزیراعظم پریڈ کا معائنہ کررہے ہیں
لبنان کے یوم آزادی کے موقع پر صدر اور وزیراعظم پریڈ کا معائنہ کررہے ہیں

توقع ہے کہ اقوامِ متحدہ کی مدد سے کام کرنے والا ٹربیونل جو 2005 میں لبنان کے سابق وزیرِ اعظم رفیق حریری کے قتل کی تفتیش کر رہا ہے، بعض لوگوں کے خلاف جلد ہی فرد جرم عائد کر دے گا۔ لبنان میں اس خبر سے تشویش پھیل گئی ہے کیوں کہ اگر حزب اللہ کے ارکان کو اس جرم میں ملوث کیا گیا، تو ملک میں تشدد پھیل سکتا ہے۔

بیروت کے کچھ علاقوں میں لوگ کہہ رہے ہیں کہ عدالت کا فیصلہ انصاف پر مبنی ہو گا۔ بعض دوسرے علاقوں میں لوگو ں کا خیال ہے کہ یہ عدالت مغربی ملکوں کی آلۂ کار ہے اور اس کے قائم کرنے مقصد حزب اللہ کو بد نام کرنا ہے ۔ حزب اللہ کو لبنان کی حکومت میں کلیدی مقام حاصل ہے اور وہ ملک کی سب سے زیادہ طاقتور ملیشیا ہے ۔ امریکہ کی نظر میں حزب اللہ دہشت گرد تنظیم ہے ۔

وسطی بیروت کے ایک سنی اور شیعہ محلے میں، حزب اللہ اور اس کے اتحادی بہت مقبول ہیں۔ حزب اللہ کے آفس کے نزدیک، ایک گیراج میں چند لوگ موٹر سائیکلوں کی مرمت کر رہے ہیں۔ ایک گاہک جن کا نام حسن ہے، کہتے ہیں کہ اگر عدالت نے حزب اللہ کے ارکان پر فرد جرم عائد کی، تو تنظیم کی طرف سے تو ہنگامے کرنے کے لیے نہیں کیا جائے گا، لیکن لوگ ضرور سڑکوں پر نکل آئیں گے اور سڑکوں پر ٹائر جلائے جائیں گے۔

حزب اللہ کے لیڈر حسن نصراللہ نے انکار کیا ہے کہ حریری کے قتل میں ان کی تنظیم کا کوئی ہاتھ تھا، اور انھوں نے کہا ہے کہ اگر کسی نے حزب اللہ کے ارکان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تو اس کے ہاتھ قلم کر دیے جائیں گے ۔ لیکن اس کا امکان نہیں ہے کہ فردِ جرم عائد کیئے جانے کے بعد کسی کو گرفتار کیا جائے گا۔ گذشتہ ہفتے کے آخر میں عدالت نے فیصلہ دیا کہ مقدمے ملزموں کی غیر موجودگی میں بھی چلائے جا سکتے ہیں ۔

2008 سے لبنان کے سیاسی منظر نامے میں، جو مختلف ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے، حزب اللہ کو سب سے مضبوط دھڑا سمجھا جاتا ہے ۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مقتول لیڈر کے بیٹے، وزیر اعظم سعد حریری کے لیے یہ بڑی مشکل صورتِ حال ہے ۔ امریکہ کی طرح وہ بھی عدالت کی حمایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس عدالت سے ان کے والد کو انصاف ملے گا۔ لیکن لبنان میں استحکام کے لیے ان کی حکومت اور حزب اللہ کے درمیان پُر امن تعلقات انتہائی ضروری ہیں۔

محمد مالح وسطی بیروت میں تمباکو کی ایک دوکان کے مالک ہیں۔ وہ کہتےہیں کہ حزب اللہ اور ان کے حامی تشدد پر نہیں اتریں گے کیوں کہ لبنان کے لوگ اس تنازع سے خوب واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ کوئی مقامی نہیں بلکہ بین الاقوامی عدالت ہے ۔فرد جرم عائد کیئے جانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملزموں کو لبنان سے باہر دھکیل دیا جائے گا۔

پندرہ سال کی خانہ جنگی کے بعد جو 1990 میں ختم ہوئی ، اور 2006 میں اسرائیل کے ساتھ جنگ، اور 2008 میں حزب اللہ اور لبنان کی حکومت کے ساتھ اسرائیل کی جھڑپوں کے بعد، بہت سے لبنانی کہتے ہیں کہ اب مزید تشدد نہیں ہوگا کیوں کہ لوگ لڑائی سے تنگ آ چکے ہیں۔

محمد نجم اپنے گھرانے کی مابائیل فونز کی دوکان چلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر حزب اللہ کے ارکان پر فرد جرم عائد کی جاتی ہے، لیکن اس کے نتیجے میں کوئی گرفتاریاں نہیں ہوتیں تو کوئی تشددنہیں ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر حزب اللہ چاہے تو دو ہفتے میں پورے لبنان پر قبضہ کر سکتی ہے ۔

Fares Souaid وزیرِ اعظم سعد حریری کی پارٹی March 14 Alliance کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حزب اللہ کے لیڈر شیعہ رائے عامہ کو گمراہ کر رہے ہیں۔ حزب اللہ کے لیڈر حسن نصراللہ شیعہ کمیونٹی کو یہ تاثر دے رہے ہیں جیسے حزب اللہ کے بعض مخصوص ارکان کو نہیں، بلکہ پوری شیعہ کمیونٹی کو مجرم قرار دے دیا گیا ہے ۔’’وہ اپنےآپ کو اور اپنی تنظیم کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ صرف مجھ پر نہیں، بلکہ آپ کو بھی ملزم قرار دیا جا رہا ہے ۔ قتل کا الزام آپ پر بھی لگایا جا رہا ہے ۔‘‘

بیروت کے دوسرے حصے میں جہاں بیشتر آبادی عیسائیوں کی ہے، مقامی لوگ کہتےہیں کہ انہیں پریشانی یہ ہے کہ فرد جرم عائد کیئے جانے کے بعد ہنگامے شروع نہ ہو جائیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لبنان میں امن کی خاطر ، ٹربیونل کو نرمی سے کام لینا چاہیئے۔ بعض دوسرے لوگ، جیسے Gerard Gebeily ،جن کی عورتوں کے کپڑوں کی دوکان ہے، کہتے ہیں کہ انصاف کی خاطر بیروت میں تشدد کی قیمت ادا کرنا کوئی مہنگا سودا نہیں۔ اصل چیز انصاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ تشددنہ ہو، لیکن کئی عشروں کی بے چینی کے بعد، لبنان کو اپنی تاریخ کا یہ باب ختم کرنا چاہیئے اور سابق وزیرِ اعظم حریری کے قاتلوں پر ،وہ چاہے کوئی بھی ہوں، مقدمہ چلانا چاہیئے۔

XS
SM
MD
LG