رسائی کے لنکس

نوجوانوں کے مطابق حکومت کی پہلی ترجیح کیا ہونی چاہیے؟


پاکستان کے نوجوانوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ غربت کا خاتمہ کسی بھی حکومت کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔

نوجوانوں نے اس رائے کا اظہار وائس آف امریکہ کے ایک سروے میں کیا ہے جو بین الاقوامی ادارے اپسوس کے ذریعے کرایا گیا ہے۔

سروے میں 18 سے 34 برس کے نوجوانوں سے یہ سوال بھی کیا گیا تھا کہ اُن کے خیال میں پاکستان کی پہلی قومی ترجیح کیا ہونی چاہیے۔

سروے میں ہر پانچ میں سے تین نوجوانوں کی رائے میں غربت کا خاتمہ پہلی ترجیح ہونی چاہیے جب کہ 58 فی صد نے بے روزگاری میں کمی کو ترجیح قرار دیا۔

لگ بھگ 28 فی صد نے تعلیمی سہولتوں میں اضافے جب کہ 23 فی صد نے صحت کی سہولیات بہتر بنانے کے حق میں رائے دی۔

ورلڈ بینک کے معیار کے مطابق ہر وہ شخص غربت کا شکار ہے جس کی یومیہ آمدن 2.5 امریکی ڈالر سے کم ہے۔ اس رقم کو اگر پاکستانی روپوں میں تبدیل کیا جائے تو یومیہ 700 یا ماہانہ 21 ہزار روپے تک کمانے والا شخص غریب کی تعریف پر پورا اترے گا۔

گزشتہ برس ستمبر میں عالمی بینک کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

نوجوان غربت سے براہِ راست متاثر

پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر منور صابر کہتے ہیں کہ سروے ظاہر کرتا ہے کہ نوجوان غربت سے براہِ راست متاثر ہو رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غربت کے پیمانے بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ یعنی اگر کوئی نوجوان اپنے کسی دوست کو 'اینڈرائیڈ' فون استعمال کرتا دیکھتا ہے جو اس کے پاس نہیں ہے تو وہ بھی خود کو غریب سمجھتا ہے۔

اُن کے بقول پچھلے ادوار میں امیر اور غریب کا فرق یہ ہوتا تھا کہ غریب آدمی پیدل سفر کرتا تھا جب کہ امیر آدمی کے پاس سائیکل تھی۔ لیکن اب امیر اور غریب کا فرق پیدل اور جہاز میں سفر کرنے والے کا ہو گیا ہے۔

پالیسی ایکسپرٹ اور تجزیہ کار عامر حسین کہتے ہیں کہ گزشتہ چار، پانچ برسوں کے دوران پاکستان کی معاشی صورتِ حال مزید خراب ہوئی ہے جس سے لامحالہ انڈسٹری اور کاروبار پر بھی منفی اثر پڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی کم ہوئے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عامر حسین کا کہنا تھا کہ نیا کاروبار شروع کرنے کے لیے پانچ سے چھ برس قبل نوجوانوں کو آسان شرائط پر قرضے مل جاتے تھے۔ لیکن اب بینکوں نے اس پر بھی کڑی شرائط عائد کر دی ہیں جس کا نتیجہ بے روزگاری کی شکل میں نکلتا ہے جو غربت مزید بڑھاتی ہے۔

عامر حسین کہتے ہیں کہ 2018 میں پاکستان کی شرحِ نمو چھ فی صد سے زیادہ تھی۔ لیکن کرونا وبا اور پھر عالمی معاشی صورتِ حال کی وجہ سے پاکستان میں مزید لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ ان کے بقول یہ صورتِ حال نوجوانوں کی مایوسی بڑھا رہی ہے جو اس سروے میں بھی ظاہر ہو رہی ہے۔

نوجوانوں کے خیال میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:56 0:00

ان کے بقول گزشتہ 10 برسوں کے دوران سوشل میڈیا کا استعمال بڑھنے اور غربت، بے روزگاری اور مہنگائی جیسے مسائل پر سوشل میڈیا پر ہونے والی بحث نے بھی نوجوانوں پر اثر ڈالا ہے۔

پاکستان میں غربت

عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق لگ بھگ ساڑھے نو کروڑ یعنی 10 میں سے چار پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں تعلیم، صحت، دیگر بنیادی خدمات اور سماجی تحفظ کا نظام مکمل طور پر ناکارہ ہو چکا ہے۔ عالمی ادارے نے امیر اور غریب طبقات پر ٹیکس کی شرح پر بھی تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

دوسری جانب بڑھتی ہوئی آبادی اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے کم مواقع کو بھی ماہرین ملک میں غربت میں اضافے سے جوڑتے ہیں۔

نوجوانوں کی دیگر ترجیحات کیا ہیں؟

بعض ماہرین کہتے ہیں کہ سروے میں نوجوانوں نے اپنی ترجیحات کو جس انداز میں واضح کیا ہے اس پر آنے والی حکومت اور پالیسی ساز اداروں کو غور کرنا چاہیے۔

ماہرِ عمرانیات پروفیسر ڈاکٹر ذکریا زاکر کہتے ہیں کہ نوجوانوں نے بے روزگاری کے خاتمے اور تعلیمی سہولیات میں اضافے کو بھی اہم ترجیحات قرار دیا ہے جس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ نوجوان پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک دیکھنا چاہتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر نوجوانوں کو باعزت روزگار کے ذریعے معاشرے میں جگہ ہی نہیں ملے گی تو پھر اُن کی مایوسی بڑھنا فطری ہے۔

اُن کے بقول تعلیم کی فراہمی بھی بنیادی سہولیات میں شامل ہے۔ لیکن غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے اگر نوجوانوں کو خوراک اور چھت ہی میسر نہیں ہے تو پھر وہ کیسے اپنا گزارہ کرے گا۔

پروفیسر ذکریا زاکر کہتے ہیں کہ اربابِ اختیار کو اس سروے پر غور کر کے اپنی ترجیحات کا تعین کرنا چاہیے تاکہ نوجوانوں کے تحفظات دُور ہو سکیں۔

وائس آف امریکہ اور اپسوس کے اس سروے کے لیے 18 سے 34 سال کے 2050 افراد سے فون پر رابطہ کر کے تین سے 12 جنوری 2024 کے درمیان رائے لی گئی تھی۔ سروے کے نتائج میں غلطی کا امکان (مارجن آف ایرر) +/- دو فی صد ہے۔

وائس آف امریکہ کا یہ سروے سائنسی بنیادوں پر کیا گیا ہے۔ سائنٹیفک سرویز کے نتائج عام تاثر اور میڈیا یا سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی مقبول آرا سے مختلف ہوسکتے ہیں۔ ان سرویز کے نتائج کا انحصار سوالوں کی ترتیب اور ان کے پوچھے جانے کے انداز، سروے کے طریقۂ کار اور جواب دینے والوں کے انتخاب پر بھی ہوتا ہے۔ سروے کے بارے میں مزید جاننے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔

فورم

XS
SM
MD
LG