"مغرب کے بعد کا وقت تھا اور اچانک پوری گلی کو 70 سے 80 پولیس اہلکاروں اور سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے گھیرے میں لیا اور بند کر دیا۔ اس کے بعد گھر گھر تلاشی کا عمل شروع ہوا، چار گھروں میں ناکامی کے بعد پانچویں گھر سے شیخ رشید احمد کو گرفتار کرلیا گیا۔ انہیں جی ٹی روڈ سے صدر راولپنڈی اور پھر گولڑہ موڑ کے قریب ایک حساس ادارے کے دفتر میں لایا گیا۔"
یہ دعویٰ ہے شیخ رشید احمد کے وکیل سردار رازق ایڈووکیٹ کا، جو اس کیس میں ان کی بازیابی کے لیے عدالت میں پیش ہو رہے ہیں۔
سردار رازق ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ جس روز شیخ رشید کو گرفتار کیا گیا تو ان کی گرفتاری کے لیے آنے والی ٹیم میں ایک ایس ایس پی، ایک ڈی ایس پی اور راولپنڈی کے چار تھانوں کے ایس ایچ اوز بھی شامل تھے۔ لیکن ان کی گرفتاری کے بعد سے اب تک پولیس اس بارے میں کوئی بھی بات کرنے سے انکار کر رہی ہے۔
حالیہ دنوں میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے کئی سیاسی قائدین کی گرفتاری کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ لیکن ان میں سے کئی ایک کو کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔
عمران خان کی حمایت کرنے والے عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید کے علاوہ پی ٹی آئی کے فرخ حبیب، عثمان ڈار، مراد سعید اور صداقت عباسی کی مبینہ گرفتاری اور اس کے بعد غائب کیے جانے کے دعوے سامنے آ رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف اس انداز کی گرفتاری کو جبری گمشدگی اور اغوا قرار دیتی ہے۔
'اسے جبری گمشدگی اور اغوا ہی کہا جا سکتا ہے'
پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی شخص کے بارے میں کسی کو بھی علم نہیں کہ وہ کہاں ہے اور اسے کس نے کس وجہ سے گرفتار کیا ہے، تو ایسی گرفتاری کو صرف جبری گمشدگی اور اغوا کہا جا سکتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے کئی قائدین جن میں فرخ حبیب، صداقت عباسی، عثمان ڈار شامل ہیں، ان کا کئی ہفتوں سے اب تک کچھ علم نہیں کہ انہیں کس ادارے نے کس وجہ سے گرفتار کیا۔
رؤف حسن کا کہنا تھا کہ اس بارے میں پارٹی کی طرف سے قانونی راستے ہی اختیار کیے جا رہے ہیں۔ مختلف عدالتوں میں ہم نے پٹیشنز فائل کی ہے۔
رؤف حسن کے بقول چیف جسٹس سے بھی پٹیشن کے ذریعے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ ازخود نوٹس لیں اور اس میں کارروائی کریں۔
اس سوال پر کہ کچھ لوگ خود بھی چھپ سکتے ہیں؟ رؤف حسن کا کہنا تھا اب تک جو ناموں کی فہرست آ رہی ہے وہ سب کے سب لوگ معروف سیاسی قائدین ہیں اور ان کے غائب ہونے کے ثبوت موجود ہیں۔
اُن کے بقول جو لوگ انڈرگراؤنڈ ہو گئے ہیں ان کے بارے میں بات نہیں ہورہی بلکہ جن لوگوں کو زبردستی غائب کردیا گیا ہے ان کے بارے میں ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں بازیاب کرکے عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے۔
'عینی شاہدین کے سامنے شیخ رشید کو حراست میں لیا گیا'
سردار رازق ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ شیخ رشید کی گرفتاری کے وقت پولیس کی بھاری نفری نے انہیں کئی عینی شاہدین کے سامنے گرفتار کیا۔
اُن کے بقول ہمارے پاس اس حوالے سے کیمروں کی ریکارڈنز موجود ہیں جن کے مطابق پولیس اہلکار جی ٹی روڈ سے ہوتے ہوئے گولڑہ موڑ کے قریب ایک ایجنسی کے دفتر پہنچے۔
رازق ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس بحریہ ٹاؤن کے کیمروں کی ریکارڈنگ بھی موجود ہے جن میں پولیس اہلکار واضح طور پر نظر آرہے ہیں۔
سردار رازق نے کہا کہ عدالت نے ہماری تمام گزارشات کو تسلیم کیا ہے اور ایک ہفتے کا مزید وقت دیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر شیخ رشید کو ایک ہفتے تک بازیاب نہیں کروایا جاتا تو ہم عدالت میں یہ ثبوت پیش کریں گے جس کے بعد جن پولیس اہلکاروں کے نام ہم نے دیے ہیں ان کے خلاف ایف آئی آر درج ہو سکتی ہے۔
پیر کو لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ شیخ رشید کے ساتھ غائب ہونے والے دو افراد بازیاب ہو گئے ہیں۔ شیخ رشید کے ساتھ ان کے ایک بھتیجے شیخ شاکر اور ملازم شیخ عمران کو بھی حراست میں لیا گیا تھا جنہیں رہا کردیا گیا ہے۔
ان کے وکیل کے مطابق دونوں افراد کچھ بھی بتانے سے اجتناب کر رہے ہیں اور خاموش ہیں۔
عدالت نے شیخ رشید کی بازیابی کے لیے پولیس کو ایک ہفتے کا وقت دیا ہے اور پیش نہ کرنے کی صورت میں پولیس افسران کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا کہا ہے۔
'نو مئی کے واقعات کی مذمت کی تھی لیکن پھر بھی گرفتار کر لیا گیا'
عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد ماضی میں فوج کے قریب سمجھے جاتے تھے اور وہ خود کو گیٹ نمبر چار کا سیاست دان کہا کرتے تھے۔
لیکن عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد شیخ رشید کو دو بار گرفتار کیا گیا اور عدالتوں نے انہیں رہا کر دیا جس کے بعد شیخ رشید روپوش ہو گئے تھے۔
شیخ رشید کے بھتیجے اور سابق رکن قومی اسمبلی راشد شفیق کہتے ہیں کہ شیخ رشید کے خلاف اس وقت کوئی مقدمہ نہیں ہے۔ لیکن انہیں گرفتار کیا گیا اور اسلام آباد اور راولپنڈی پولیس ان کی گرفتاری تسلیم کرنے سے ہی انکار کر رہی ہے۔
راشد شفیق کا کہنا تھا کہ اگر ان کے خلاف کوئی کیس ہے تو انہیں تھانے میں پیش کیا جائے، ہم قانونی جنگ لڑیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ شیخ رشید احمد نے 9 مئی کے واقعات کی مذمت کی تھی، لیکن یہ درست نہیں کہ ایک سینئر سیاست دان کو اس طرح سے 'اغوا' کرلیا جائے۔
حکومت اور پولیس کا مؤقف
نگراں وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی کہتے ہیں کہ یہ معاملہ پنجاب حکومت کا ہے اور عدالت اس معاملے کو دیکھ رہی ہے۔
دوسری جانب راولپنڈی پولیس کا مؤقف ہے کہ شیخ رشید اُن کے پاس نہیں ہیں، تاہم اُن کی بازیابی کے لیے کوشش کی جا رہی ہے۔
پاکستان کے ریاستی ادارے لوگوں کو اپنی تحویل میں لینے کے ایسے الزامات کی ماضی میں تردید کرتے رہے ہیں۔
اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے صداقت عباسی، فرخ حبیب اور عثمان ڈار کی بازیابی کے لیے مختلف عدالتوں میں پٹیشنز فائل کی گئی ہیں جہاں اس ضمن میں پولیس اور دیگر اداروں سے رپورٹس طلب کی گئی ہیں لیکن اب تک کسی کو بھی بازیاب نہیں کروایا جاسکا۔ پنجاب حکومت اور پنجاب پولیس ان افراد کی گرفتاریوں کی مکمل تردید کرتے ہیں۔
حایہ عرصہ میں ایک صحافی عمران ریاض چار ماہ کے عرصے کے بعد اپنے گھر واپس آچکے ہیں اور اپنی صحت کے حوالے سے مختلف مسائل سے دوچار ہونے کی وجہ سے گھر پر ہی موجود ہیں۔
فورم