رسائی کے لنکس

پاک افغان سرحدی راستے کھلنے چاہیں: سفیر زخیلوال


فائل فوٹو
فائل فوٹو

حقوق انسانی کی ایک سرگرم کارکن فاطمہ عاطف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سرحد کی بندش مسئلے کا دیرپا حل نہیں ہے۔

پاکستان میں تعینات افغانستان کے سفیر حضرت عمر زخیلوال نے پاک افغان سرحدی راستے کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔

افغان سفیر نے ایک بیان میں کہا کہ اُنھوں نے جمعرات کو ایک خط پاکستانی فوج کی قیادت کو لکھا، جس میں اس اُمید کا اظہار کیا گیا کہ آج یہ سرحدی راستے یعنی کراسنگ پوائنٹس کھول دیئے جائیں گے۔

سفیر عمر زخیلوال نے کہا کہ بدھ کی شب پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے ملاقات میں بھی اُنھوں نے سرحدی کراسنگ پوائنٹس کھولنے کی بات کی تھی۔

افغان سفیر نے کہا کہ حالیہ دنوں میں اُن کی پاکستانی عہدیداروں سے ملاقاتوں کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ کشیدگی میں جلد کمی کے لیے طورخم، سپن بولدک اور دیگر سرحدی راستے اب تک کھل جانے چاہیئے تھے، لیکن بدقسمتی سے یہ اب بھی بند ہیں۔

بیان میں افغان سفیر نے کہا کہ تجارت کے راستے کسی بھی طرح کے حالات میں بند نہیں ہونے چاہیئں۔ اُنھوں نے کہا کہ دونوں جانب نگرانی کے انتظامات کے باوجود ان سرحدی راستوں کی بندش سے ماسوائے عام آدمی اور تاجروں کے لیے مشکلات کے علاوہ کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔

اُدھر پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا سے جب جمعرات کو پاک افغان سرحد کھولنے سے متعلق سوال پوچھا گیا تو اُنھوں نے اس بارے میں کوئی واضح جواب نہیں دیا۔

ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کے مہلک حملوں کے بعد گزشتہ ہفتے پاکستان نے سلامتی کے خدشات کی وجہ سے پاک افغان سرحدی راستے بند کر دیئے تھے۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

حالیہ دہشت گرد حملوں کے بعد پاکستان نے افغانستان میں روپوش ’دہشت گردوں‘ سے متعلق ایک فہرست افغان عہدیداروں کو فراہم کرتے ہوئے، اُن شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا، جب کہ اس کے جواب میں افغان وزارت خارجہ نے بھی پاکستان میں موجود افغان شدت پسندوں اور اُن کے مبینہ ٹھکانوں سے متعلق ایک فہرست پاکستان کو فراہم کی تھی۔

حقوق انسانی کی ایک سرگرم کارکن فاطمہ عاطف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سرحد کی بندش مسئلے کا دیرپا حل نہیں ہے۔

’’میرا خیال ہے کہ سرحدیں بند کر دینا اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔۔۔ جو پاک افغان بارڈر ہے اس کو آپ ریگولیٹ کریں جو قانونی طور پر لوگ آتے جاتے ہیں ان کو جانے دیں تجارت کا راستہ بند نا ہو ایڈ کا راستہ بند نا ہو۔۔۔ غیر قانونی چیزیں جو ہیں۔‘‘

پاکستان میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملوں میں سے زیادہ تر کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دھڑے ’جماعت الاحرار‘ نے قبول کی تھی اور پاکستان کا موقف ہے کہ اس دہشت گرد تنظیم کی قیادت سرحد پار افغانستان میں مقیم ہے۔

رواں ہفتے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں کہا تھا کہ پاک۔افغان سرحد پر سکیورٹی بڑھانے کا مقصد مشترکہ دشمن سے لڑنا ہے، جس میں ہر طرح کے ’’دہشت گرد‘‘ شامل ہیں۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان دہشت گردی کے خلاف لڑتے رہے ہیں اور ان کوششوں کو مشترکہ طور پر جاری رہنا چاہیئے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دونوں ہی ملکوں کو دہشت گردی کا سامنا ہے اور اس کا دیرپا حل اسی صورت ممکن ہے جب پاکستان اور افغانستان عدم اعتماد کے ماحول کو ختم کر کے ایک دوسرے سے تعاون کریں۔

XS
SM
MD
LG