رسائی کے لنکس

بلوچستان میں خشک میوہ جات اور پھلوں کی پیداوار میں ساٹھ فیصد تک کمی


بلوچستان میں خشک میوہ جات اور پھلوں کی پیداوار میں ساٹھ فیصد تک کمی
بلوچستان میں خشک میوہ جات اور پھلوں کی پیداوار میں ساٹھ فیصد تک کمی

کوئٹہ میں خشک میوہ جات اور پھلوں کے کاروبار سے وابستہ تاجروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اب انجیر ، بادام ، چلغوزہ کی پیداوار تقریباً ختم ہوگئی ہے اور اب بعض میوے افغانستان جب کہ کچھ ایران اور بھارت سے درآمد کیے جاتے ہیں ۔ جس کے باعث سالانہ کروڑوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ خرچ ہورہا ہے.

زرعی تحقیقاتی مرکز کوئٹہ کے ڈائریکٹر یار محمد پندرانی نے کہا ہے کہ گذشتہ 10 سالہ خشک سالی نے بلوچستان کے اُن اضلاع کو بُری طرح متاثر کیا ہے جہاں پیدا ہونے والے خشک میوہ جات اور پھل پاکستان بھر میں اپنے ذائقے اور تازگی کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔

خشک سالی نے بلوچستان کے جن اضلاع کو سب سے زیادہ متاثرکیا ہے اُن میں کوئٹہ ، پشین ، زیارت، لورالائی اور قلات شامل ہیں اور ان علاقوں میں سیب کے باغات بُر ی طرح متاثر ہوئے ہیں۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق حالیہ برسوں میں سیب ، بادام اور آم کی پیدوار میں50 فیصد کمی ہوئی ہے جب کہ آڑو، آلوچہ ، ناشپاتی ، اناراور ناریل سمیت دیگر پھلوں اور میوہ جات کی پیداوار میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے۔

یار محمد پندرانی نے کہا کہ ادارے نے اب زمیندار وں اور کاشتکاروں کے لیے موسم اور ماحول کے مطابق متبادل پودے متعارف کرائے ہیں جن میں انگور، پستہ اور زیتون شامل ہیں جنھیں نشوو نما کے لیے کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ پانی بچانے کے لیے بھی ایک نظام متعارف کر ایا گیا ہے اور ماہرین توقع کر رہے ہیں کہ اس سے زیر زمین پانی کو بچانے میں مدد ملے گی۔

اُنھوں نے کہا کہ سیب کے باغات کو زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے یہ پانی کی کمی کے باعث سب سے زیادہ متاثرہوئے۔ یار محمد پندرانی کا کہنا ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح کم ہونے کے باعث اب زمیندار بھی ایسے پھلوں کے درختوں کی جانب راغب ہو رہے ہیں جنھیں پانی کی کم ضرورت ہوتی ہے۔

بلوچستان میں خشک میوہ جات اور پھلوں کی پیداوار میں ساٹھ فیصد تک کمی
بلوچستان میں خشک میوہ جات اور پھلوں کی پیداوار میں ساٹھ فیصد تک کمی

کوئٹہ میں خشک میوہ جات اور پھلوں کے کاروبار سے وابستہ تاجروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اب انجیر ، بادام ، چلغوزہ کی پیداوار تقریباً ختم ہوگئی ہے اور اب بعض میوے افغانستان جب کہ کچھ ایران اور بھارت سے درآمد کیے جاتے ہیں ۔ جس کے باعث سالانہ کروڑوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ خرچ ہورہا ہے ۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت صوبے میں بارش کا پانی ذخیرہ کر نے کے لیے ڈیموں کی تعمیر تیز کرے تو زمینداروں کو جہا ں پانی ملے گا وہاں خشک میوہ جات درآمد کرنے پر خرچ ہونے والے زرمبادلہ کو بھی بچایا جاسکے گا۔

XS
SM
MD
LG