رسائی کے لنکس

'امریکہ میں موجود 1200 پاکستانی وطن واپس جانا چاہتے ہیں'


امریکہ میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان
امریکہ میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان

''امریکہ میں پھنسے پاکستانیوں کے لیے اسپیشل فلائٹس کے معاملے پر امریکہ میں ہمیں غیر معمولی صورتِ حال کا سامنا ہے، جسے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔" یہ بات امریکہ میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان نے وائس آف امریکہ سے خصوصی بات چیت میں کہی ہے۔

اسد مجید خان نے کہا ہے کہ ایسے تمام پاکستانی جو وطن واپس جانا چاہتے تھے ان سے ایمبیسی نے فرداً فرداً رابطہ کیا ہے۔ اور ایسے افراد کی ایک جامع فہرست موجود ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ امریکہ سے پاکستانیوں کی واپسی کے حوالے سے کچھ تاخیر ہوئی ہے۔ لیکن، انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے اسپیشل اسسٹنٹ اور ایمبیسی اس معاملے پر مسلسل کام کر رہے ہیں اور اسپیشل فلائٹس کا آپشن موجود ہے، جس پر پاکستان کی قومی ایئر لائین پی آئی اے کو مد نظر رکھا جا رہا ہے۔

امریکی حکومت اور محکمہ خارجہ کے پاکستان کے ساتھ تعاون کے حوالے سے سفیر نے کہا کہ ابھی تک سفارت خانے کو کسی غیر معمولی مدد کی ضرورت کا معاملہ پیش نہیں آیا۔

انہوں نے کہا کہ "پی آئی اے کی امریکہ میں اسپیشل فلائٹس لانے کے لیے کلیئرنس کی ضرورت ہے اور امریکی حکومت اس بات کی حمایت کرتی ہے۔ ایمبیسی اس سلسلے میں بہت سا وقت اور توانائی صرف کر رہی ہے۔ اسلام آباد بھی اس بارے میں فوکسڈ ہے۔ اس میں امریکہ کے حوالے سے خاص طور پر ہمیں غیر معمولی صورتحال کا سامنا ہے اور ہم اس کو ریزالو کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔"

سفیر نے مزید بتایا کہ اس وقت گیارہ سو سے بارہ سو تک ایسے پاکستانی ہیں جو واپس وطن جانا چاہتے ہیں، لیکن اس فہرست میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ 'قطر ایئرویز' کی بکنگ پاکستانی ایمبیسی کے ذریعے ہو رہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قطر ایئرویز خود ہی ہوائی سفر کی ٹکٹ کی قیمت مقرر کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اسی لیے پی آئی اے کی سپیشل فلائٹ لانے کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ پاکستانی کم خرچے میں وطن واپس لوٹ سکیں۔

امریکہ میں کووڈ نائینٹین کی ایمرجنسی کے دوران پاکستانی سفارت خانے کی مصروفیات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ایسے حالات میں دوسرے ملکوں نے اپنے اپنے قونصلیٹ بند کر دیے تھے۔ پاکستان نے ایک دن کیلئے بھی اپنا قونصل خانہ بند نہیں کیا۔ اور وہ پاکستانیوں کو پاسپورٹ کے اجرا اور پاور آف اٹارنی جیسے اہم کاغذات کی تصدیق کے لیے کام کرتے رہے۔

سفیر کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ ایمبیسی نے لوگوں کو پاکستان کے حالات اور ان کے خاندانوں سے متعلق معلومات بھی مسلسل فراہم کی ہیں اور کمیونٹی کو آپس میں بھی رابطے میں رکھا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ امریکہ میں کرونا وائرس کی وجہ سے موت کا شکار ہونے والے پاکستانیوں کا کوئی ڈیٹا موجود ہے، تو سفیر نے کہا کہ اس پر بات کرنا مشکل ہے۔ تاہم، انہوں نے کئی ایسے پاکستانی امریکنز سے تعزیت کی ہے جن کے پیارے کرونا وائرس کا شکار ہو کر ہلاک ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال ہے اور پاکستانی سفارتخانہ کوشش کر رہا ہے کہ اس سلسلے میں تمام معلومات اکٹھی کی جائیں "جب ہم مناسب سمجھیں گے بتا بھی دیں گے۔ لیکن، پرائوسی کا بھی ایشو ہے۔" کچھ پاکستانی اپنے رشتے داروں کی موت کی وجہ نہیں بتانا چاہتے۔

ایک سوال کے جواب میں اسد مجید خان نے کہا کہ جب بھی کسی پاکستانی نے سفارتخانے سے رابطہ کیا وہ معاشی مشکلات کی وجہ سے اپنی رہائش کا انتظام نہیں کر سکتا تو سفارتخانے میں اس کے رہنے کے لئے ہوٹل اور کھانے کا بندوبست کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی اداکارہ میرا نے پاکستانی سفارتخانے سے خود ہی رابطہ کیا اور یہ بات درست نہیں کے سفارت خانے نے صرف ان کے ٹھہرنے کا ہی بندوبست کیا، بلکہ جب بھی کوئی ضرورت مند پاکستانی سفارتخانے سے رابطہ کرتا ہے سفارتخانہ اس کے رہنے اور کھانے پینے کا بندوبست کرتا ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ وزیر اعظم کے ریلیف فنڈ میں بیرون ملک پاکستانیوں سے اس مشکل وقت میں مالی عطیات کی اپیل کیوں کی گئی ہے سفیر اسد مجید خان کا کہنا تھا کہ یہ کنٹری بیوشنز جب تک ایک بڑے دھارے میں نہیں جائیں گی ان کا ایک موثر استعمال نہیں ہو سکے گا۔

XS
SM
MD
LG