رسائی کے لنکس

آسیہ بی بی کے خاندان کی اسپین اور فرانس سے پناہ کی درخواست


 آسیہ بی بی (فائل فوٹو)
آسیہ بی بی (فائل فوٹو)

’میں نے بچوں کو جب بتایا کہ آسیہ کی رہائی کا فیصلے ہوا ہے تو وہ خوشی سے میرے گلے لگ گئے لیکن تین دن میں جو حالات ہوئے ہیں بچے اب سہم گئے ہیں۔‘

توہینِ مذہب کے مقدمے میں سپریم کورٹ سے بری ہونے والے آسیہ بی بی کے خاندان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انھیں شدید سکیورٹی خدشات لاحق ہیں اس لیے انھوں نے اسپین اور فرانس کو درخواست دی ہے کہ انھیں پناہ دی جائے۔

آسیہ بی بی کے شوہر عاشق مسیح نے وائس آف امریکہ سے بات چیت میں کہا کہ اُن کے خاندان کے لیے پاکستان میں رہنا نامکمن ہے۔

عاشق مسیح نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کا خاندان کسی محفوظ مقام پر منتقل ہو جائے اور اپنی زندگی بہتر طریقے سے گزاریں کیونکہ بقول اُن کے یہاں (پاکستان) میں اُن کا رہنا اب ممکن نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ فرانس اور اسپین میں پناہ کے لیے انھوں نے باقاعدہ درخواست دی ہے اور وہ اُن کے جواب کے منتظر ہیں۔

اس سوال پر کہ آسیہ سے اُن کا اب تک کوئی رابطہ ہوا تو انھوں نے کہا کہ انھیں آسیہ کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں اور نہ ہی کسی حکومتی اہلکار نے اُن سے رابطہ کیا ہے۔

بعض اطلاعات کے مطابق ایک یورپی ملک نے آسیہ بی بی کے خاندان کو پناہ دینے کے لیے کارروائی کا آغاز کر دیا ہے لیکن سکیورٹی کی وجوہات کی بناپر اُس ملک کا نام ظاہر نہیں کیا جا رہا ہے۔

سپریم کورٹ نے توہینِ مذہب کے مقدمے میں آسیہ بی بی کی سزائے موت کے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انھیں فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔

اس فیصلے کے ملک بھر میں مذہبی جماعت تحریکِ لیبک نے مظاہرے اور دھرنے کر کے نہ صرف تشدد احتجاج کیا بلکہ ریاست کی عملداری کو چیلنج کیا۔

گو کہ اب حکومت کے مذاکرات کے بعد راستے کھل گئے ہیں اور زندگی معمول پر آ رہی ہے لیکن آسیہ بی بی کا خاندان شدید اضطراب میں مبتلا ہے۔

'گھر کے باہر سکیورٹی بھی خطرہ ہے'

وائس آف امریکہ سے بات چیت میں عاشق مسیح نے اپنے خاندان کو لاحق سکیورٹی خدشات کا اظہار کیا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم یہاں کیسے رہ سکتے ہیں فیصلے کے بعد کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔‘

(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

انھوں نے بتایا کہ ’اگر سکیورٹی ہمارے گھر کے باہر بھی ہے تو وہ ہمارے لیے خطرہ ہے کیونکہ اس طرح سب کو ہمارے گھر کا پتہ چل جائے گا یہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔‘

عاشق مسیح کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے کہ اب جب اُن کی اہلیہ کو بے گناہ قرار دے کر انھیں رہا کرنے کا فیصلہ آیا ہے تو وہ ایک ساتھ رہیں۔

آسیہ کی رہائی کے بعد اپنے تاثرات بتاتے ہوئے عاشق مسیح نے کہا کہ ’میں نے بچوں کو جب بتایا کہ آسیہ کی رہائی کا فیصلے ہوا ہے تو وہ خوشی سے میرے گلے لگ گئے لیکن تین دن میں جو حالات ہوئے ہیں بچے اب سہم گئے ہیں۔‘

عاشق مسیح کہتے ہیں کہ فیصلے کے بعد ملک بھر میں جو کچھ ہوا اُس کے بعد اُن کے بچے بہت خوفزدہ ہیں۔

وکیل باہر چلے گئے مقدمہ کون لڑے گا؟

آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک (فائل فوٹو)
آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک (فائل فوٹو)

ادھر سپریم کورٹ میں آسیہ بی بی کا مقدمہ لڑنے والے وکیل سیف الملوک بھی سکیورٹی خدشات کی بنا پر ملک سے باہر چلے گئے ہیں۔

آسیہ بی بی کے خاندان نے اپنے وکیل سیف الملوک کے ملک سے باہر جانے پر بھی سخت مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

خاندان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اب جبکہ عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر ہو گئی ہے تو آسیہ کا مقدمہ کون لڑے گا؟

عاشق مسیح نے بتایا کہ آسیہ کے جیل میں جانے کے بعد سے اب تک اپنے پانچ بچوں کی دیکھ بہال وہ خود کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ وہ اور اُن کے بچے آسیہ کے منتظر ہیں۔

آسیہ بی بی کی سب سے چھوٹی بیٹی ایشام کی عمر نو سال تھی جب وہ توہین مذہب کے جرم میں قید ہوئی تھیں۔

آسیہ بی بی کون تھیں؟

آسیہ بی بی کو توہین مذہب کے الزام میں 2010ء میں سزائے موت سنائی گئی تھی وہ پاکستان میں سزائے موت پانے والی پہلی خاتون تھیں۔

آسیہ بی بی نے اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی تھیں جس پر 2014ء میں عدالت نے سزا کو برقرار رکھنے کا فیصلہ دیا تھا۔ 2015ء میں اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے آسیہ بی بی کی سزا کے خلاف درخواست پر ابتدائی سماعت جولائی 2015ء میں شروع کی اور ان کی اپیل کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے اپیل پر حتمی فیصلہ تک سزا پر عمل درآمد روک دیا۔

سپریم کورٹ نے لاہبور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے 31 اکتوبر 2018ء کو اُن کی رہائی کا حکم دیا تھا۔

  • 16x9 Image

    سارہ حسن

    سارہ حسن ملٹی میڈیا صحافی ہیں اور ان دنوں وائس آف امریکہ اردو کے لئے اسلام آباد سے ان پٹ ایڈیٹر اور کنٹری کوآرڈینیٹر پاکستان کے طور پر کام کر رہی ہیں۔

XS
SM
MD
LG