رسائی کے لنکس

پارلیمان میں معذور افراد سے متعلق قانون سازی تعطل کا شکار


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی 18 کروڑ آبادی میں سات فیصد معذور افراد ہیں جبکہ اسلام آباد اقوام متحدہ کے معذور افراد کے حقوق سے متعلق کنونشن پر دستخط کر چکا ہے۔

قومی اسمبلی آئندہ چند روز میں اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد تحلیل ہونے والی ہے جو کہ کئی پاکستانیوں کے لیے باعث مسرت ہے کیونکہ ملک کی 65 سالہ تاریخ میں پہلی بار کسی اسمبلی کو یہ اعزاز حاصل ہوا۔

تاہم معذور افراد ایوان زیریں کے منگل کے اجلاس سے بظاہر مایوس نکلے جس کی وجہ ان سے متعلق مجوزہ بل کا اسمبلی کی کارروائی کے ایجنڈا میں نہ ہونا تھا۔

اجلاس کے دوران متحدہ قومی موؤمنٹ (ایم کیو ایم) کی قانون ساز کشور زہرہ نے اراکین کی توجہ ایوان میں مہمانوں کی گیلری میں بیٹھے معذور افراد کے ایک گروپ کی جانب مبزول کراتے ہوئے کہا کہ وزیر قانون فاروق نائیک کی طرف سے یقین دہانی کے باوجود معذور افراد سے متعلق قانونی مسودے کو ایجنڈے میں شامل نہیں کیا گیا ہے نہ ہی اس کی کوئی وجہ بتائی گئی۔

مجوزہ قانون کے تحت قومی اسمبلی اور سینٹ کے علاوہ چاروں صوبائی اسمبلیوں میں معذور افراد کے لیے ایک ایک نشست مختص کی جائے گی۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی لگ بھگ 18 کروڑ آبادی میں سات فیصد افراد جسمانی معذوری کا شکار ہیں جبکہ اسلام آباد اقوام متحدہ کے معذور افراد کے حقوق سے متعلق کنونشن پر دستخط کر چکا ہے۔

کشور زہرہ نے اجلاس کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ وہ گزشتہ دو سالوں سے اس قانونی مسودے کو قومی اسمبلی میں پیش کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہیں اور قائمہ کمیٹی برائے قانون نے ایک سال قبل اس بل کو متفقہ طور پر منظور کر دیا تھا۔

’’ہم مسلمان تو ہیں مگر ارکان دین پر مغرب میں جتنا عمل پوتا ہے ہمارے یہاں نہیں ہوتا۔ وہاں معذوروں کے حقوق کی پرواہ نہ صرف حکومت بلکہ سول سوسائٹی بھی کرتی ہے۔ ہمارے یہاں حکومت نہیں کرتی تو معاشرے میں شعور ہی نہیں پیدا ہوتا۔‘‘

ایم کیو ایم کی رکن قومی اسمبلی نے دعویٰ کیا کہ سرکاری محکموں میں بھی معذور افراد کو ان کے مختص کردہ 2 فیصد کوٹے کے مطابق ملازمتیں بھی نہیں دی جاتی ہیں۔

سید سردار احمد پیزادہ نابینا ہونے کے باوجود ایک مقامی اخبار میں کالم نگار اور ایف ایم ریڈیو کے ایک پروگرام کے میزبان ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چند دنوں میں تحلیل ہونے والی قومی اسمبلی نے معذوروں سے متعلق قانونی مسودے پر سرد مہری کا مظاہر کیا لیکن اس باوجود اس حوالے سے کوشش جاری رہیں گی۔

’’میں اپنا مسئلہ خود کیوں نہیں بیان کر سکتا؟ ہمارے معذوروں میں کیا کمی ہے؟ ہمارے لوگ وکالت، طب، تعلیم، کھیل اور تمام شعبوں میں ہیں تو ہم پارلیمان میں کیوں نہیں بیٹھ سکتے۔‘‘

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے چیئرمین سید ممتاز عالم گیلانی نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ حکومت یا اراکین پارلیمان معذور افراد کو پارلیمان میں نمائندگی کے لیے تیار نہیں۔

’’تیں ماہ پہلے تو ہماری کمیٹی بنی اور دوسری طرف یہ بل بہت دیر سے ہمیں ملا۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ پارلیمان میں آئیں۔‘‘

یاد رہے کہ بعض اراکین پارلیمنٹ اپنے بیشتر ساتھیوں کے معاشرتی مسائل سے متعلق قانون سازی پر ’’غیر سنجیدہ‘‘ رویوں کی طرف اشارہ کیے جاتے رہے ہیں۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ اسمبلیوں کی نسبت موجودہ اسمبلی کی اس حوالے سے کارکردگی بہتر ہے۔
XS
SM
MD
LG