رسائی کے لنکس

عدالتی کمیشن میں خفیہ اداروں کے لوگ 'شامل نہیں ہو سکتے'


اسحٰق ڈار
اسحٰق ڈار

وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں نہ تو کوئی بادشاہت ہے اور نہ کوئی جنگل کا قانون کہ جس کا جو جی چاہے وہ اس طرح کا کمیشن اپنی مرضی سے تشکیل کر لے۔

پاکستان میں حکومتی عہدیداروں نے گزشتہ عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نمائندوں کو شامل کرنے کے عمران خان کے مطالبے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔

حکومت مخالف جماعت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اتوار کو رحیم یار خان میں اپنی جماعت کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کی نگرانی میں ایک غیرجانبدار کمیشن بنائے جس میں فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے لوگ بھی شامل ہوں۔

تاہم پیر کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ آئین کے تحت عدالتی کمیشن صرف ججوں پر مشتمل ہوتا ہے اور اس میں خفیہ اداروں کے حکام شامل نہیں کیے جا سکتے۔

" یہ کوئی بڑی عجیب قسم کی (تجویز) ہے کہ نا تو پاکستان میں کوئی بادشاہت ہے نہ کوئی جنگل کا قانون کہ جس کا جو جی چاہیے وہ اس طرح کر لے، تشکیل اپنی مرضی کی کر لے۔ یہ بھی ہم سپریم کورٹ کو نہیں کہ سکتے ہیں کہ کون سے جج آ پ ہمیں دیں یہ ان کی صوابدید پر ہے۔"

عمران خان 2013ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے آرہے تھے اور حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے انھوں نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے اگست کے وسط سے دھرنا بھی دے رکھا ہے۔

لیکن ان کی طرف سے اس مطالبے میں تبدیلی دیکھی گئی اور اب عمران خان کہتے ہیں کہ تحقیقات میں اگر دھاندلی ثابت ہو جائے تو وزیراعظم استعفیٰ دے دیں جب کہ اس سے قبل ان کا مطالبہ تھا کہ نواز شریف تحقیقات سے پہلے ہی مستعفی ہوں۔

سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے حکومت کے تحریک انصاف سے مذاکرات بھی ہوتے رہے لیکن پھر ان میں تعطل آگیا۔

اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ حکومت نے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے لیکن ان کے بقول مذاکرات کے سلسلے میں ہونے والی آخری ملاقات میں "ہر چیز طے ہوچکی ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ اب بھی وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن صرف ان ہی باتوں پر عمل ہوگا جو آئین و قانون کے دائرے میں ہوں گی۔

تاہم تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو میں الزام عائد کیا کہ حکومت مذاکرات سے فرار چاہتی ہے۔

"عمران خان نے قومی مسئلے کو حل کرنے کے لیے لچک دکھائی نیک نیتی سے، لیکن حکومت تیار نظر نہیں آتی اور اگر حکومت سمجھتی ہے کہ مذاکرات بے سود ہیں تو ہمیں کہہ دے، ہم نے مذاکرات کو ہمیشہ ترجیح دی ہے اور آج بھی دیں گے لیکن اگر حکومت فرار چاہتی ہے تو ہم تیار ہیں۔"

وفاقی وزیر نے ایک بار پھر احتجاجی سیاست اور حکومت مخالف دھرنے کو ملک کی معیشت کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی وجہ سے نہ صرف اربوں روپے کا نقصان ہوچکا ہے بلکہ ان کے بقول حکومت نے جو اہداف مقرر کر رکھے تھے ان کے حصول میں بھی تاخیر ہوئی ہے۔

تحریک انصاف کے نسبتاً محدود تعداد میں کارکن اسلام آباد میں دھرنے کے مقام پر موجود ہیں لیکن عمران خان نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ اس دھرنے کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے احتجاج کا دائرہ ملک گیر سطح تک بڑھائیں گے اور اسی سلسلے میں انھوں نے حالیہ ہفتوں میں لاہور اور کراچی سمیت مختلف شہروں میں جلسے بھی کیے ہیں۔

انھوں نے اپنے حامیوں سے 30 نومبر کو ایک بار پھر اسلام آباد میں جمع ہونے کا بھی کہہ رکھا ہے۔

XS
SM
MD
LG