رسائی کے لنکس

سیلاب زدگان کے لئے امدادی سرگرمیاں سست روی کا شکار


سیلاب زدگان کے لئے امدادی سرگرمیاں سست روی کا شکار
سیلاب زدگان کے لئے امدادی سرگرمیاں سست روی کا شکار

سن دوہزار پانچ میں آنے والے زلزلے کے بعد حالیہ سیلاب پاکستان کی سب سے بڑی قدرتی آفت ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک جائزے کے مطابق اس سیلاب کی تباہ کاریاں سونامی ، ہیٹی اور 2005 کے زلزلے سے بھی بڑی ہیں۔ زلزلے کی تباہ کاریوں نے ناصرف پوری قوم کو متحدہو کر تن من دھن سے زلزلہ متاثرین کی امداد کے لئے بڑھ چڑھ کر آگے آنے پر مجبور کردیا تھا بلکہ مالی امداد کے لئے پوری قوم کی سرگرمیاں قابل دید تھیں لیکن اس بار نہ تو عوامی سطح پر ہی وہ جوش نظر آرہا ہے اور نہ میڈیا نے کوئی خصوصی اور وہ موثر مہم چلائی کہ جس سے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ امداد کے لئے گھروں سے نکالا جاسکتا۔
سیلاب کو آئے دوسرا ہفتہ ہونے کو ہے مگر کراچی میں سیلاب زدگان کی امداد کے لئے ابھی تک کوئی امدادی کیمپ نظر نہیں آیا۔ گولیمار چورنگی، نمائش چورنگی اور ناظم آباد سات نمبر وہ جگہیں ہیں جہاں زلزلہ متاثرین اور دیگر مقاصد کے لئے سیاسی جماعتوں کی طرف سے امدادی کیمپس لگتے رہے ہیں۔ متعدد بار تو ایسا بھی ہوا کہ دو جماعتوں کے برابر برابر امدادی کیمپ لگے جہاں لوگوں نے ناصرف نقد عطیات دیئے بلکہ گھی، تیل اور دیگر خوردنی اشیاء کے ساتھ ساتھ کپڑے اور عام استعمال کی چیزیں بھی رضاکارانہ طور پر جمع کرائیں۔ لیکن اس بار گولیماراور نمائش کی چورنگیاں ویران پڑی ہیں۔ سات نمبر بھی خالی ہے اور دیگر علاقوں میں بھی کوئی کیمپ نہیں لگا۔ اگر کوئی چھوٹا موٹا کیمپ لگا ہوتو اس تک عوام کی آگاہی نہیں۔
گزشتہ ہفتے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی جانب سے بھی سیلاب متاثرین کی امداد کیلئے اپیلیں کی گئیں ۔ عوامی ترغیب کے لئے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کی جانب سے وزیراعظم فلڈریلیف فنڈ برائے متاثرین سیلاب کو عام کرنے کے لئے ایس ایم ایس سروس بھی شروع کی گئی تاکہ لوگ گھر بیٹھے ہیں چندہ دے سکیں۔
وزیر اعظم پاکستان کا فنڈ برائے بحالی سیلاب زدگان 2010 بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس کے تحت ایمرجنسی ریلیف سیل کیبنٹ ڈویژن نے لوگوں سے سرکاری بینک اکاوٴنٹ میں عطیات جمع کرانے کی اپیل کی تھی۔ اخبارات میں بھی اس مہم کو خوب مشتہر کیا گیا ۔
اخبار جنگ نے وزارت خزانہ کے ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ متعلقہ سرکاری بینک کو تاحال عام لوگوں، تاجروں اور دیار غیر میں موجود پاکستانیوں سے امدادی رقوم ملنا شروع نہیں ہوئیں تاہم،وائس آف امریکہ کے رابطہ کرنے پر وزارت خزانہ کے سینئر ترجمان نے کہا کہ وزیراعظم کی اپیل پر رد عمل اچھا ہے۔ اگرچہ ترجمان کے پاس اس ”اچھے رد عمل“ کی تفصیلات نہیں تھیں ۔
تاہم ذرائع نے امید ظاہر کی کہ رمضان میں صورتحال بہتر ہوجائے گی کیونکہ لوگ امداد دینے کے منتظر ہیں اور بابرکت مہینے میں زکواة دینا چاہتے ہیں۔ اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہارات کے ذریعے وفاقی حکومت عوام کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے کہ وہ امداد دے کر سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد کریں لیکن جس طرح کی سخاوت پاکستان کے عوام سے چاہتے ہیں وہ اب تک نظر نہیں آ رہی۔
امداد دینے میں سست روی کے حوالے سے ایک سرکاری افسر کا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پرکہنا ہے کہ لوگوں کو یقین نہیں ہے کہ ان کی دی ہوئی رقم ضرورت مندوں تک پہنچ سکے گی اس لئے لوگ عطیات دینے میں خاطر خواہ دلچسپی نہیں لے رہے۔
شہر کے متعدد غیر سرکاری اداروں( این جی اوز) نے بھی چندہ مہم شروع کی ہوئی ہے جن میں ایدھی ٹرسٹ،انصار برنی ٹرسٹ ، الخیر ٹرسٹ (العالمی) ، تحریک اہلحدیث وغیرہ بھی شامل ہیں۔ انہی اداروں میں سے ایک ادارے میں کام کرنے والے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اداروں کو اس باربڑے پیمانے پرچندہ اکھٹا ہونے کی امید نہیں۔ سردست تو یہ کہ مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑی ہوئی ہے، بیروزگاری زیادہ ہے، پھر رمضان پر سر پر ہے۔ سب لوگوں کو فکر ہے کہ رمضان میں اخراجات بڑھ جاتے ہیں ، پھر ایک ماہ بعد عید ہے ایسے میں جتنا پس انداز کرلیا جائے اچھا ہے۔
امدادی کاموں میں مصروف ایک اور سرگرم کارکن کا کہنا ہے کہ اس بار میڈیا میں چندے اکھٹے کرنے کی مہم بھی پوری طرح نہیں چل سکی۔ ابھی تو یہ عالم ہے کہ خود میڈیا اپنی بقا ء کی جنگ لڑ رہا ہے۔ چینلز پر بندش کے سبب مہم کو شروع ہونے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔ زلزلہ متاثرین کی امداد کے وقت میڈیا نے جو کردار ادا کیا اور لوگوں کو ہر طرح سے امداد کے لئے رضامند کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ ایک میڈیا گروپ نے پہلے کی طرح اس بار بھی لائیو نشریات کے ذریعے لوگوں کو چندہ دینے پر آمادہ کرنے کے لئے کئی گھنٹے کی نشریات کیں مگرچینلز کی بندش اور سیاسی کشمکش ، پھر بارشوں اور خراب موسموں نے میڈیا کو اس طرف پوری طرح متوجہ ہونے کا ہی موقع نہیں دیا۔ رہی مساجد میں چندے اکھٹی کرنے کی بات تو مساجد میں پہلے ہی چندہ اکٹھا کرنے پر پابندی عائد ہے۔
حکومت کو اس وقت سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد، ریسکیو، ریلیف اور بحالی کے اقدامات کیلئے بڑی تعداد میں فنڈز کی ضرورت ہے تاہم موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے شاید حکومت اتنی تعداد میں فنڈز اکٹھا نہ کرسکے جس کی وہ امید کر رہی ہے۔امریکا، برطانیہ ، سعودی عرب، ترکی اور دیگر ممالک نے مالی امداد میں اپنا اپنا حصہ لیا ہے مگر اس کے باوجودسیلاب نے جو تباہی پھیلائی ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ رقم کم ہے۔ ابھی تعمیر نو کا عمل پوری طرح شروع نہیں ہوسکا ہے مگر ایک بار یہ عمل شروع ہوگیا تو پھر رقم کی مزید ضرورت پڑھ سکتی ہے۔

XS
SM
MD
LG