رسائی کے لنکس

’انگور کے بعد اب تربوز بھی کھٹے ہیں‘


’انگور کے بعد اب تربوز بھی کھٹے ہیں‘
’انگور کے بعد اب تربوز بھی کھٹے ہیں‘

تربوز موسم گرما میں دل پسند پھل ہوا کرتا ہے۔ طبی نقطہ نظر سے اس کی اپنی افادیت ہے ۔ اسے نہ صرف کھایا جاتا ہے بلکہ اس کا موجود رس پی کر پیاس بھی بجھائی جاسکتی ہے۔ایک زمانہ تھا کہ یہ پھل کم آمدنی والے لوگوں کے لیے’کم خرچ بالا نشیں‘ ہوا کرتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مہنگائی نے جس طرح دیگر ضروریات زندگی کا حصول عام آدمی کے لیے قدرے مشکل بنا دیا ہے اسی طرح یہ پھل بھی اب عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتا جارہا ہے۔

گرمیوں کا موسم آتے ہی ملک کے بڑے شہریوں بشمول وفاقی دارالحکومت کے مصروف چوراہوں پر تربوز کا ڈھیر لگائے بیوپاری گاہکوں کے منتظر رہتے ہیں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ ان کے خریداروں میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جو بڑی گاڑیوں میں آتے ہیں، یہاں رکتے ہیں ، کبھی تھوڑی زحمت کرکے گاڑی سے باہر نکل کر تربوز کا بغور جائزہ لیتے ہیں اور مول بھاؤ کے بعد ’ٹَک‘ لگوا کر تربوز خرید لیتے ہیں ورنہ اکثر تو گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی اس پھل کی خریداری کا شوق پورا کر لیتے ہیں۔

’انگور کے بعد اب تربوز بھی کھٹے ہیں‘
’انگور کے بعد اب تربوز بھی کھٹے ہیں‘

گل محمد گذشتہ دس سالوں سے تربوز فروخت کررہے ہیں ۔اسلام آباد کے ایک پوش علاقے کے چوک میں تربوز کا ڈھیر لگائے بیٹھے اس شخص نے بتایا کہ گزشتہ سالوں کی نسبت تربوز کی قیمت میں قابل ذکراضافہ ہوا ہے۔”پچھلے سال تربوز کاجو ٹرک اسی یا نوے ہزار کا آتا تھا وہ اب ایک لاکھ تیس یا چالیس ہزار کا ہوگیا ہے۔تو ہم کیا کریں مہنگا خریدیں گے تو مہنگا ہی بیچیں گے۔“ ان چوراہوں پر تربوز 20 سے 40 روپے کلو فروخت ہورہا ہے۔

نسبتاً عوامی مقامات یعنی بازاروں اور بس اڈوں پر چھوٹی چھوٹی ریڑھیوں پر چند تربوز رکھ کر اور پھر انھیں کاٹ کر پاؤ ، آدھ پاؤ کی ایک پلیٹ میں گاہگوں کے لیے فروخت کرنے کے مناظر بھی گرمیوں کا ایک منظر ہیں۔

وفاقی دارالحکومت میں کراچی کمپنی کا علاقہ سستا تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں ایک ریڑھی پر تربوز بیچنے والے جمیل احمد کا کہنا تھا کہ گذشتہ سالوں کی نسبت قیمت میں سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔”پہلے ایک دس روپے والی پلیٹ اب بیس روپے میں بیچتا ہوں ۔منڈی سے مال مہنگا ملتا ہے اور پھر اگر ان (تربوز) میں سے کوئی کچا یا خراب نکل آئے تو وہ نقصان بھی مجھے ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔“

ذوالفقاربھی ریڑھی پر تربوز بیچتے ہیں اور ان کا کہنا تھا ”ایک دانے(تربوز) پر دس سے پندرہ روپے بمشکل بچتے ہیں۔ منڈی سے یہاں تک آنے کا کرایہ علیحدہ ہے، پھر انھیں ٹھنڈا رکھنے کے لیے برف بھی رکھنی پڑتی ہے اور وہ بھی مہنگی ہوگئی ہے۔یہ تو بس جی اب گزارے والی بات ہے سو گزارہ کررہے ہیں۔“

’انگور کے بعد اب تربوز بھی کھٹے ہیں‘
’انگور کے بعد اب تربوز بھی کھٹے ہیں‘

ذوالفقار سے ایک پلیٹ تربوز خرید کرکھانے والے خلیل احمد تو جیسے پہلے سے ہی تیار بیٹھے تھے اور ہمارے پوچھنے سے پہلے ہی بول پڑے۔”میں تربوز بہت شوق سے کھاتا تھا ۔پورا پورا تربوز ختم کر جایا کرتا تھا لیکن اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ موسم کے اس پھل کا ذائقہ لینے کے لیے کبھی کوئی ایک آدھ پلیٹ کھا لیتا ہوں۔“

خلیل نے کہا کہ تربوز بھی اب غریب آدمی کی پہنچ سے دور ہوگیا ہے ۔”ایک مزدور آدمی جس کی ڈیڑھ سے دو سو روپے دہاڑی ہو۔ وہ سو روپے کی چینی لے گا، گھی لے گا یا تربوز کھائے گا۔“

XS
SM
MD
LG