رسائی کے لنکس

کیا پاکستان کی معیشت واقعی اندھے کنویں سے نکل آئی؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر طارق باجوہ نے کہا ہے کہ دوست ملکوں کے تعاون کی بدولت پاکستان معاشی بحران سے نکل آیا ہے اور معیشت درست راستے پر آ گئی ہے۔ مالیاتی استحکام کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ قرضے کی بات چیت بھی جاری ہے۔

ایسا کیا ہوا کہ چند دن پہلے تک معیشت اندھے کنویں میں تھی لیکن اچانک اس سے باہر نکل آئی ہے؟ معاشی تجزیہ کار مزمل اسلم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب سے تین، متحدہ عرب امارات سے ایک اور چین سے دو ارب ڈالر مل چکے ہیں۔ امارات سے اگلے دو مہینوں میں مزید دو ارب ڈالر ملیں گے۔ سعودی عرب اور امارات نے تین تین ارب ڈالر کا تیل ادھار پر دینے کی سہولت بھی فراہم کر دی ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب چار ارب ڈالر نقد دے کر ایل این جی پلانٹ خرید رہا ہے۔ اس طرح فوری طور پر جو مالی مسائل تھے، وہ حل ہو گئے ہیں۔

دنیا نیوز کے بزنس ایڈیٹر حارث ضمیر کو مزمل اسلم سے اختلاف ہے۔ انھوں نے کہا کہ اصل مسئلہ پرانے قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی کا تھا جس کی وجہ سے بحران تھا۔ اس سے نمٹنے کے لیے دوست ملکوں سے پیسہ تو آ رہا ہے لیکن ہے تو یہ بھی قرضہ ہی۔ اسے آئندہ برسوں میں واپس کرنا پڑے گا۔ اسے لوٹانے کے پیسے کہاں سے آئیں گے؟ اس کے ذرائع دستیاب نہیں۔

حارث ضمیر نے کہا کل ہی بیرونی سرمایہ کاری کے اعدادوشمار سامنے آئے ہیں۔ ان سے پتا چلتا ہے کہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کم ہوئی ہے۔ سعودی ولی عہد کے دورے میں اربوں ڈالر کے سمجھوتے ہوئے ہیں لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ منصوبے کب شروع ہوں گے اور پیسہ کب آئے گا۔ ایک آئل ریفائنری بنانے کی بات کی گئی ہے لیکن اسے بنانے میں پانچ سال لگیں گے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ قرضہ لوٹانے کے لیے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا ضروری ہے۔ اسی تناظر میں وزیراعظم عمران خان نے ایف بی آر سے کہا ہے کہ ٹیکس نہ دینے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے۔ مزمل اسلم نے کہا کہ آئی ایم ایف حکومت پر زور دے رہا ہے کہ ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے تاکہ بجٹ خسارہ کم سے کم ہو۔ وزیراعظم اس معاملے میں مایوسی کا شکار ہیں۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ مارچ تک ایف بی آر کی کارکردگی بہتر نہ ہوئی تو وہ یہ ادارہ بند کردیں گے۔ مسئلہ ٹیکس گزاروں کا نہیں بلکہ ایف بی آر کے اندر ہے۔ اس پر غصہ کیا جائے گا تو ٹیکس گزاروں ہی کو ڈرائے دھمکائے گا۔

لیکن پرانے ٹیکس گزاروں کو دھمکانے سے ٹیکس نیٹ تو نہیں بڑھے گا؟ نئے ٹیکس گزار کیسے بنائے جائیں گے؟ حارث ضمیر نے بتایا کہ کچھ دن پہلے وزیر خزانہ اسد عمر کراچی چیمبر آئے تو انھوں نے ٹیکس فارم آسان بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ اس وقت کوئی ٹیکس نہ دینے والا ٹیکس دینے کے بارے میں سوچتا ہے تو اس سے اتنے سوالات کیے جاتے ہیں اور اتنی دستاویزات طلب کی جاتی ہے کہ وہ گھبرا جاتا ہے اور ٹیکس نہیں دیتا۔ ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے ٹیکس دینے کا طریقہ آسان بنانے کی ضرورت ہے

XS
SM
MD
LG