رسائی کے لنکس

چمن دھرنے کے شرکا کے خلاف پولیس کی کارروائی، متعدد افراد گرفتار


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بلوچستان کے سرحدی ضلعے چمن میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان پاسپورٹ اور ویزے کی شرط لاگو کیے جانے کے فیصلے کے خلاف چار ماہ سے جاری دھرنے کے شرکا کے خلاف پولیس نے سیکیورٹی فورسز کے ہمراہ کارروائی کی ہے۔

پیر اور منگل کی شب میسجنگ ایپلی کیشن ’واٹس ایپ‘ پر ایسی ویڈیوز زیرِ گردش رہیں جن میں نظر آ رہا ہے کہ رات کے اندھیرے میں سیکیورٹی اہلکار مظاہرین کو ایک مقام سے ہٹا رہے ہیں۔

ویڈیوز میں واضح ہو رہا ہے کہ جس وقت کارروائی کی گئی اس وقت وہاں موجود لوگ سردی سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے آگ جلا کر بیٹھے تھے۔ بعض ویڈیوز سیکیورٹی اہلکاروں سے چھپ کر بنائی گئی ہیں۔

بلوچستان کی نگراں حکومت کے ترجمان اور نگراں وزیرِ اطلاعات جان اچکزئی نے چمن میں مظاہرین کے خلاف کارروائی کی تصدیق کی ہے۔

جان اچکزئی نے ایک بیان میں کہا کہ مظاہرین نے قانون ہاتھ میں لے کر پاسپورٹ آفس جانے والا راستہ بلاک کیا تھا جس پر پولیس نے دیگر سیکیورٹی اداروں کے ہمراہ ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مظاہرین کو چند ماہ قبل پر امن احتجاج کی اجازت دی گئی تھی۔ لیکن پاسپورٹ آفس کو بلاک کر کے اشتعال انگیز عمل کیا گیا جس پر پولیس نے مداخلت کی۔

انہوں نے سرکاری پالیسی ایک بار پھر دہراتے ہوئے کہا کہ پاسپورٹ کی شرط ریاست کی پالیسی ہے۔ اس پالیسی کو نافذ کیا جائے گا اور اس میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی۔

دوسری جانب اسسٹنٹ کمشنر آفس چمن سے رابطہ کرنے پر ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پولیس اور فورسز نے دھرنے کے مقام پر کوئی کارروائی نہیں کی۔ البتہ چمن کے کالج روڈ پر رات گئے سیکیورٹی فورسز نے چھاپے کے دوران چار افراد کو حراست میں لیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ حراست میں لیے جانے والے افراد نے کارِ سرکار میں مداخلت کی تھی اور پاسپورٹ آفس کے سامنے کنٹینر لگا کر اندر جانے کے لیے راستہ بند کر دیا تھا۔

اہلکار نے کہا کہ پولیس نے پاسپورٹ آفس کے سامنے سے کنٹینر سمیت تمام رکاوٹیں ہٹا دی ہیں۔

چمن میں بابِ دوستی شاہراہ پر دھرنے کے شرکا نے سیکیورٹی فورسز کی مبینہ کارروائی اور کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف منگل کو احتجاج کا اعلان کیا ہے۔

واضح رہے کہ چمن میں ’آل پارٹیز لغڑی اتحاد‘ نے سرحد پر آمد و رفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزا شرائط عائد کرنے کے خلاف چار ماہ قبل دھرنا دیا تھا جو اب بھی جاری ہے۔

’آل پارٹیز لغڑی اتحاد‘ کے دھرنے کے ترجمان صادق اچکزئی نے رات گئے ویڈیو پیغام میں الزام لگایا تھا کہ پولیس نے دھرنے کو نشانہ بنایا ہے اور متعدد افراد کو گرفتار کر کے اپنے ہمراہ لے گئی ہے۔

انہوں نے خود سوزی کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اس کی تمام تر ذمہ داری پولیس اور انتظامیہ پر عائد ہوگی۔

صادق اچکزئی کا دعویٰ ہے کہ دھرنے میں کارروائی کے بعد اب منگل کو کیا جانے والے احتجاج کے دوران بھی کارروائی کا امکان ہے۔ تاہم وہ دھرنا ختم نہیں کریں گے۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس پاکستان میں قائم ہونے والی نگراں حکومت نے غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کرنے کے ساتھ ساتھ چمن سرحد پر پاسپورٹ اور ویزے کو لازمی قرار دیا تھا۔

نگراں حکومت کے اس فیصلے کے خلاف 21 اکتوبر سے پاکستان اور أفغانستان کی سرحدی مقام ’باب دوستی‘ کی جانب جانے والی سڑک پر چمن کے مزدوروں، چھوٹے تاجروں اور سیاسی جماعتوں نے احتجاجی دھرنا دے رکھا ہے۔

مظاہرین نے دھرنے کے دوران پاکستان اور افغانستان کے درمیان شاہراہ بھی بند کر دی تھی جس سے تجارت بھی معطل ہو گئی تھی۔

دھرنے میں شریک بیشتر افراد مقامی مزدور ہیں جو سرحد کے دونوں جانب کندھوں پر سامان لاد کر لاتے اور لے جاتے ہیں۔

مقامی پشتو زبان میں ان مزدوروں کے لیے ’لغڑی‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

لغڑیوں کو پہلے حکومت نے ہاتھوں سے سامان سرحد پار لے جانے اور لانے کی اجازت دی تھی۔ تاہم اب ان کے لیے بھی پاسپورٹ اور ویزے کی شرائط لازمی قرار دی گئی ہے۔

دھرنے کو منظم کرنے والی کمیٹی کو ’آل پارٹیز تاجر لغڑی اتحاد‘ کا نام دیا گیا ہے جس کی حمایت بلوچستان کے پشتون علاقوں میں فعال لگ بھگ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے کی گئی ہے۔

سرحد پر کاروبار سے وابستہ مزدوروں کی تعداد 20 سے 25 ہزار بتائی جاتی ہے جن میں اکثریت کا تعلق سرحدی اضلاع چمن اور قلعہ عبداللہ سے ہے۔ سرحد پار افغانستان کے صوبہ قندھار کے سرحدی ضلع اسپن بولدک کے بھی چند ہزار لوگوں کا روزگار اس سے وابستہ ہے۔

چمن میں شدید سردی کے باوجود 'آل پارٹیز تاجر لغڑی اتحاد' کا دھرنا چوبیس گھنٹے جاری رہتا ہے۔ صبح آٹھ بجے سے لے کر ظہر کی اذان تک اس دھرنے میں روزانہ بڑی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں جن میں دھرنے کے منتظمین کے ساتھ ساتھ مختلف سیاسی، مذہبی جماعتوں، تاجر تنظیموں اور مقامی قبائلی عمائدین خطاب کرتے ہیں۔

ظہر اور عصر کی نماز کے وقفے کے بعد دوبارہ لوگ دھرنے میں شرکت کرتے ہیں جن کی تعداد صبح کے مقابلے میں کافی کم ہوتی ہے۔

مغرب کی اذان کے ساتھ یہ لوگ واپس اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ البتہ دھرنے کے مقام پر تاجر تنظیموں اور مقامی سیاسی جماعتوں نے اپنے خیمے نصب کر رکھے ہیں جہاں روزانہ رات گزارنے کے لیے لوگوں کی ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان پیدل آمد و رفت اور تجارت کے لیے طورخم اور چمن سب سے مصروف گزرگاہیں ہیں۔

طورخم سرحد پر 2016 میں آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزا لازمی قرار دیا گیا تھا۔ تاہم متعدد کوششوں کے باوجود حکومت چمن سرحد پر پاسپورٹ اور ویزا کے اطلاق کو یقینی نہیں بنا سکی تھی۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد لگ بھگ 2600 کلو میٹر طویل ہے جس میں 1229 کلو میٹر صوبہ خیبر پختونخوا جب کہ باقی حصہ بلوچستان کے ساتھ لگتا ہے۔

پاکستانی حکام کے مطابق حکومت نے پاسپورٹ اور ویزے کے اطلاق کا فیصلہ بلوچستان سمیت ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے تناظر میں کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG