رسائی کے لنکس

برطانوی انتخابات: مقبول پاکستانی امیدوار


مبصرین کی جانب سے پچھلی پارلیمنٹ کے آٹھ مسلمان اراکین سمیت نئی پارلیمان کے لیےآٹھ نئے مسلم امیدواروں کا اپنےحلقوں سے کامیابی کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے ۔

برطانیہ میں رہنے والے مسلمانوں کی سب سے بڑی سیاسی کامیابی اسوقت ملی، جب اسکاٹ لینڈ گلاسگو سے 1997 میں چوہدری محمد سرور برطانوی پارلیمنٹ کے پہلے مسلمان ممبر منتخب ہوئے تھے۔

2010 کی برطانوی پارلیمان میں مسلمان اراکین کی مجموعی تعداد 8 تھی جن میں لیبر کے 6 اور کنزرویٹو کے 2 مسلمان رکن پارلیمنٹ شامل تھے، اس سے پہلے 2005 میں یہ تعداد 4 اور 2001 کی پارلیمنٹ میں مسلمان امیدواروں کی تعداد صرف 2 تھی ۔

مسلم نیوز کے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ پچھلے انتخابات میں مسلمان امیدواروں کی تعداد80 تھی جبکہ حالیہ انتخابات میں 96 مسلمان امیدوار حصہ لے رہے ہیں ۔

ان امیدواروں میں سے 24 لبرل ڈیموکریٹ کے ٹکٹ پر انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔

ایڈ ملی بینڈ کی لیبر پارٹی سے 22 امیدوار اور وزیر اعطم ڈیوڈ کیمرون کی جماعت کنزرویٹو کی طرف سے 19مسلمان امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں ۔

ان کے علاوہ گرین پارٹی سے سات ،ایس این پی سے ایک اور یو کے انڈیپینڈنٹ جماعت نے 10 اور14 امیدوار دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے نامزد ہیں۔

مبصرین کی جانب سے پچھلی پارلیمنٹ کے آٹھ اراکین سمیت نئی پارلیمان کے لیے آٹھ نئے مسلمان امیدواروں کا اپنےحلقوں سے کامیابی کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے ۔

ان میں لیبر کے چھ امیدواروں کو مضبوط خیال کیا جارہا ہے جبکہ کنزرویٹو اور اسکاٹش نیشنل پارٹی کے ایک ایک امیدواروں کی کامیابی کی توقع کی جارہی ہے۔

صادق خان : پاکستانی نژاد برطانوی صادق خان گورڈن براؤن کی کابینہ میں پہلے مسلمان وزیر رہ چکے ہیں وہ لندن کے حلقے ٹوٹنگ سے 2005میں رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے اور تیسری بار اسی حلقے سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔

ٹوٹنگ نسلی اقلیتوں کا علاقہ ہے جہاں پاکستانی، ہندوستانی اور سیا فام اقلیتوں کی بڑی تعداد رہائش پزیر ہے جو عشروں سے لیبر کا علاقہ ہے۔

صادق خان کا شمار برطانیہ کے سینئیر سیاستدانوں میں ہوتا ہے وہ شیڈو جسٹس کے عہدے پر فائز ہیں۔بعد میں انھیں شیڈو منسٹر فار لندن کے عہدے پر فائز کیا گیا ان کے والد بس ڈرائیور تھے جبکہ صادق خان نے اپنی محنت اور لگن سے وکالت کی ڈگری حاصل کی۔

ساجد جاوید: ساجد جاوید کو کنزرویٹو کا ابھرتا ہوا رہنما تصور کیا جاتا ہے وہ 2010 میں ووسٹر شائر میں برومس گروو رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے۔ اس الیکشن میں وہ اس حلقے سے کنزرویٹو کی نشست کا دفاع کر رہے ہیں۔

ساجد جاوید کے پاس ثقافت، میڈیا اور کھیل کی وزارت کا قلمدان ہے، اس سے قبل ساجد جاوید اقتصادی سیکرٹری اور مالیاتی سیکرٹری کے عہدوں پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔

ان کے والد بس ڈرائیور تھے جبکہ انھوں نے سرکاری اسکول سے تعلیم حاصل کی اور بعد میں یونیورسٹی سےمعاشیات اور سیاسیات میں ڈگری حاصل کی۔ وہ 1988 سے کنزرویٹو جماعت کے رکن ہیں ۔

خالد محمود ۔خالد محمود برطانوی پارلیمنٹ میں طویل ترین مدت سے رکن ہیں ۔اس انتخابات میں بھی برمنگھم میں پیری البر کے انتخابی حلقے سے ان کی آسان فتح کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ لیبر کی یہ نشست ان کے پاس 2001 سے ہے۔

انس سرور : انس سرور گلاسگو سنٹرل سے 2010 میں پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ اس بار وہ اسکاٹش نیشنل پارٹی کے مضبوط امیدوار کے سامنے اپنی نشست کا دفاع کر رہے ہیں حالیہ جائزوں میں اس حلقے سے سخت مقابلے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔

وہ چوہدری محمد سرور کے صاحبزادے ہیں اور پیشے کے لحاظ سے ایک ڈینٹیسٹ ہیں۔

سجاد حسین : سجاد حسین مانچسٹر میں اولڈ ہیم سے ایسٹ اینڈ سیڈل ورتھ کے انتخابی حلقے سے کنزرویٹو کے امیدوار ہیں۔ وہ لوکل ہاوسنگ ایسوسی ایشن میں چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر فائز ہیں۔

ان کے حلقے میں ایشیائی آبادی کی اکثریت ہے جن میں پاکستانی اور بنگلہ دیشی شامل ہیں ان کے حلقے سے لیبر کی رکن پارلیمنٹ ڈیبی ابراہیم اپنی نشست کا دفاع کر رہی ہیں۔

اظہر علی: اظہر علی لنکا شائر میں پینڈل سے لیبر کے ٹکٹ پر امیدوار نامزد ہیں۔ ان کے حلقے میں کنزرویٹو کے امیدوار کے ساتھ سخت مقابلے کی توقع ہے جو اپنی سیٹ کا دفاع کر رہے ہیں۔

اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایشیائی کمیونٹی پر مشتمل ایک بڑا حلقہ ہے جہاں کی لگ بھگ اٹھارہ فیصد آبادی پاکستانیوں پر مشتمل ہے۔

اظہر علی لیڈز یونیورسٹی سے ماسٹر آف بزنس کی ڈگری رکھتے ہیں جبکہ لنکا شائر کاونٹی کونسلر کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔

عمران حسین : مغربی یورکشائر میں بریڈ فورڈ ایسٹ سے لیبر کے نامزد امیدوار ہیں۔

انھوں نے وکالت کی ڈگری حاصل کی ہے ،اس حلقے میں لب ڈیموکریٹ کے امیدوار کے ساتھ ایک قریبی مقابلے کی توقع ہے جو پچھلے انتخابات میں لیبر کے امیدوار کے مقابلے میں معمولی اکثریت سے کامیاب قرار پائے تھے۔

XS
SM
MD
LG