رسائی کے لنکس

گوری رنگت کے شوق میں خواتین میں جلد کے امراض بڑھ گئے


کراچی میں رنگ گورا کرنے والی درجنوں غیر معیاری کریمیں مقبول ملکی اور غیر ملکی برانڈز کی کریموں کے نام سے بیچی جارہی ہیں جس سے خواتین کی ایک بڑی تعداد یومیہ جلدی بیماریوں میں مبتلا ہو رہی ہے ۔

کراچی کا کھوڑی گارڈن کا علاقہ ایک عرصے سے غیر معیاری یا جعلی ناموں سے بننے والے میک اپ کے سامان کی خرید و فروخت کا مرکز بنا ہوا ہے۔

یہاں خاص کر رنگ گورا کرنے والی درجنوں غیر معیاری کریمیں مقبول ملکی اور غیر ملکی برانڈز کی کریموں کے نام سے بیچی جارہی ہیں جس سے خواتین کی ایک بڑی تعداد یومیہ جلدی بیماریوں میں مبتلا ہو رہی ہے ۔

ان کریموں سے متاثرہ ایک لڑکی اریبہ سیف نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ نومبر میں ان کی شادی کے موقع پر ایک بیوٹی پارلر میں انہوں نے اپنا میک اپ کرایا تھا لیکن اگلے ہی دن غیر معیاری اور ’سب اسٹیڈرڈ ‘کریموں کی وجہ سے ان کے چہرے پر بڑے بڑے دانے نکل آئے حتیٰ کہ خون رسنے لگا اور سارا چہرہ سوجھ گیا ۔ کئی ہفتوں تک علاج کرانے کے بعد ان کا چہرہ نارمل ہوا۔ ‘

’ انسٹیٹیوٹ آف اسکن ڈیزیز سندھ‘ کے ماہر امراض جلد ڈاکٹر اقبال سومرو نے وی او اے کے رابطہ کرنے پر کہا کہ ’یہاں روزانہ ایسی ایک درجن سے زائد خواتین آ رہی ہیں جن کا چہرہ رنگ گورا کرنے والی کریم کے استعمال سے خراب ہو گیا۔ ‘

وی او اے کے ایک سوال پر ڈاکٹر اقبال سومرو نے بتایا ’رنگ گورا کرنے والی غیر معیاری کریموں میں کیمیکل اور ہیوی میٹل ہوتے ہیں جن سے کچھ دنوں کے لئے رنگ گورا ضرور ہو جاتا ہے لیکن اس کے بعد جلد گلنا شروع ہو جاتی ہے۔‘

جلدی امراض میں اضافے کا اندازہ ان اعدادوشمار سے بھی کیا جا سکتا ہے جو انسٹی ٹیوٹ آف اسکن ڈیزیز سندھ نے جاری کئے ہیں۔ ان کے مطابق گزشتہ 6 ماہ کے دوران 5 لاکھ 1 ہزار 902 مریضوں کا علاج ہوا ۔جلدی امراض کے 12 ہزار 19 آپریشن ہوئے۔ 14 ہزار 183 ٹیسٹ ہوئے۔

ایک اور ماہر امراض جلد ڈاکٹر مہوش فواد کا کہنا ہے ’گورا رنگ کرنا ہمارے معاشرے کی تقریباً ہر عورت اور لڑکی کی خواہش ہوتی ہے ۔ اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے وہ سستا ہونے کے سبب غیر معیاری رنگ گورا کرنے کا دعویٰ کرنے والی کریمیں استعمال کر بیٹھتی ہیں جبکہ بسا اوقات سستے بیوٹی پارلرز بھی زیادہ منافع کمانے کے لئے ایسی کریمیں استعمال کرتے ہیں جن سے جلدی امراض ہو جاتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG