رسائی کے لنکس

آواز کی دنیا کے دوستو، ثریا شہاب رخصت ہوئیں


معروف براڈکاسٹر ثریا شہاب ، فائل فوٹو
معروف براڈکاسٹر ثریا شہاب ، فائل فوٹو

Fپاکستان ٹیلی وژن کی سابق نیوزکاسٹر ثریا شہاب کے انتقال کی خبر ملنے پر واشنگٹن میں وائس آف امریکہ کے سینئر براڈکاسٹرز غم زدہ ہو گئے۔ ثریا شہاب کا جمعرات کی شام اسلام آباد میں انتقال ہو گیا تھا۔ انھیں جمعہ کو مقامی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

ثریا شہاب کے بیٹے خالد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کی والدہ کچھ عرصے سے الزائمر کا شکار تھیں اور ان کی یادداشت متاثر ہوئی تھی۔ جمعرات کی شام ان کی طبیعت اچانک خراب ہوئی اور انھیں اسپتال لے جانے کا موقع بھی نہیں ملا۔ ان کا گھر پر ہی انتقال ہو گیا۔ ان کی عمر 75 سال تھی۔

وائس آف امریکہ کے سینئر براڈکاسٹر رضی احمد رضوی نے بتایا کہ ثریا شہاب کا پی ٹی وی پر آڈیشن انھوں نے لیا تھا۔ ایک دن آغا ناصر کا فون آیا کہ وہ ایک خاتون کو بھیج رہے ہیں جو ریڈیو زاہدان میں کام کر چکی ہیں۔ رضی رضوی ان دنوں پی ٹی وی کے نیوز ایڈیٹر تھے۔ انھوں نے آڈیشن لیا اور ثریا شہاب کو پاس کر دیا۔ چند دن بعد وہ پی ٹی وی کا خبرنامہ پڑھنے لگیں۔ یہ 1973 کا ذکر ہے۔

اس سے پہلے آغا ناصر ہی نے ثریا شہاب کو ریڈیو پر موقع دیا تھا۔ وہ ریڈیو کو خط لکھ کر پروگراموں پر تبصرے کرتی تھیں۔ آغا ناصر نے انھیں بلایا اور آڈیشن لیا۔ انھوں نے ڈرامے میں صداکاری کی تو پورے ملک میں دھوم مچ گئی۔ اس وقت ان کی عمر چودہ پندرہ سال تھی۔ ایک سال بعد ثریا شہاب کو ریڈیو زاہدان میں ملازمت مل گئی اور وہ وہاں چلی گئیں اور دس سال کام کیا۔ ان کے پروگرام کا آغاز آج بھی سننے والوں کو یاد ہے: آواز کی دنیا کے دوستو! یہ ریڈیو زاہدان ہے۔

ثریا شہاب کے ساتھ پی ٹی وی کا خبرنامہ پڑھنے والے خالد حمید نے بتایا کہ وہ بہت محنتی خاتون تھیں۔ وہ کم عمری میں ایران چلی گئی تھیں اور ان کی تعلیم ادھوری رہ گئی تھی۔ واپس آنے کے بعد وہ پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان پر خبریں پڑھتی رہیں اور تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔ ایف اے اور گریجویشن کے بعد ایم اے کیا۔ انھوں نے یوتھ لیگ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی اور اس کی سرگرمیوں میں مصروف رہتی تھیں۔

ثریا شہاب رخصت ہوئیں
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:17 0:00

رضی رضوی نے کہا کہ ثریا شہاب بہت روانی سے خبریں پڑھتی تھیں اور اہل زبان ہونے کی وجہ سے ان کا تلفظ بالکل ٹھیک تھا۔ ان کے شوہر بنگالی تھے اور رضی رضوی کو بنگالی زبان آتی تھی۔ دونوں خاندانوں میں مراسم پیدا ہوئے۔ اتفاق سے دونوں کو بیرون ملک ملازمت ایک ساتھ ملی۔ 1985 میں رضی رضوی وائس آف امریکہ میں شمولیت کے لیے واشنگٹن آئے اور ادھر ثریا شہاب بی بی سی لندن کے لیے روانہ ہوئیں۔

ثریا شہاب نے ایک بار ملتان کی ادب دوست شخصیت شاکر حسین شاکر کو بتایا تھا کہ انھیں بچپن میں خط اور کہانیاں لکھنے اور نظمیں کہنے کا شوق تھا۔ ان کی کئی کتابیں شائع ہوئیں جن میں شاعری کی ایک کتاب، افسانوں کا ایک مجموعہ اور دو ناول شامل ہیں۔

بی بی سی لندن کے بعد ثریا شہاب نے کچھ عرصہ جرمنی میں گزارا۔ پاکستان آنے کے بعد انھوں نے لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا۔ انھیں الزائمر کا مرض لاحق ہوا اور ان کی یادداشت ختم ہو گئی۔ آخری عمر میں وہ اپنے بچوں کو بھی نہیں پہچان پاتی تھیں۔

پی ٹی وی کی سابق نیوزکاسٹر عشرت فاطمہ نے بتایا کہ انھیں بہت کم عرصہ پی ٹی وی میں ثریا شہاب کو دیکھنے کا موقع ملا کیونکہ وہ لندن چلی گئی تھیں لیکن اس مختصر مدت میں بھی انھوں نے گہرا اثر چھوڑا۔ ان کی شخصیت بارعب تھی۔ سب لوگ ان کا احترام کرتے تھے اور مشکل میں بھی ان کی طرف دیکھتے تھے کیونکہ وہ فلاحی کاموں میں مصروف رہتی تھیں۔ ایک صاحب جاوید منور ریڈیو پر خبریں پڑھتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر کبھی مجھے کچھ ہو جائے تو کسی کو اطلاع مت دینا، صرف میڈیم ثریا شہاب کو بتا دینا۔

عشرت فاطمہ نے کہا کہ انھیں جب معلوم ہوا کہ ثریا شہاب کی طبیعت اچھی نہیں تو وہ کئی بار ان سے ملنے کے لیے گئیں۔ تب تک الزائمر ان پر حملہ کر چکا تھا۔ کبھی وہ انھیں پہچان لیتی تھیں اور کبھی پہچان نہیں پاتی تھیں۔ وہ ہمیشہ ملول ہو کر واپس آتیں۔ انھوں نے ایک ایف ایم ریڈیو چینل پر ان کا انٹرویو کرنا چاہا۔ خواہش یہ تھی کہ ان کی یادیں ریکارڈ کر لی جائیں۔ لیکن دو گھنٹے کی کوشش کے باوجود کچھ حاصل نہیں ہوا۔

XS
SM
MD
LG