رسائی کے لنکس

انٹرنیٹ ۔ انتہا پسندوں کا ایک مؤثر ہتھیار


انٹرنیٹ ۔ انتہا پسندوں کا ایک مؤثر ہتھیار
انٹرنیٹ ۔ انتہا پسندوں کا ایک مؤثر ہتھیار

انٹرنیٹ کے ذریعے لوگ اپنی کمیونٹی، اپنے دوست احباب کے ساتھ تعلق قائم کر سکتے ہیں۔ لیکن انٹرنیٹ کے ذریعے ہی القاعدہ کے رکن انور العولقی جیسے افراد بھی نوجوانوں کے ساتھ روابط قائم کر سکتے ہیں۔ امریکی نیوز چینل ’فاکس نیوز‘ کی نامہ نگار کیتھرین ہیرج نے 18 ماہ تک انور العولقی پر تحقیق کی ہے ۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں دہشت گرد حملوں کی بہت سی سازشوں میں العولقی کا سراغ ملا ۔

ہیرج کا کہناہے کہ وہ العولقی کو القاعدہ کا دوسرا بڑا لیڈر سمجھتی ہیں ۔ ان کے مطابق یہ لوگ ہماری ٹکنالوجی ہمارے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ وہ انٹرنیٹ اور بلاگنگ کے استعمال سے واقف ہیں۔ اور ان کے ذریعے اپنے نفرت بھرے خیالات دنیا بھر پھیلاتے ہیں۔ گیارہ ستمبر کے بعد القاعدہ میں کچھ تبدیلیاں آئی ہیں۔ اب وہ اسامہ بن لادن یا الظوہری جیسے سربراہ کے زیر نگرانی چلنے والی کوئی بڑی کمپنی نہیں رہی، بلکہ چھوٹے چھوٹے حصوں میں بٹ گئی ہے۔ وہ پرانے طرز کی القاعدہ ہے جس کی کچھ نشانیاں پاکستان اور افغانستان میں موجود ہیں۔ پھر یمن اور صومالیہ جیسے ملکوں میں ان کے مقامی ادارے ہیں جن میں بعض امریکی بھی شامل ہیں۔ پھر وہ لوگ ہیں جو خود ہی انتہا پسندی کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور مغربی یورپ سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ کبھی اپنے گھروں سے بہت دو ر نہ جانے کے باوجود نفرت بھرے خیالات کو اپنا لیتے ہیں۔

کیتھرین ہیرج کہتی ہیں کہ انور العولقی کے11ستمبر 2001 ءکو نیو یارک میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث بعض حملہ آوروں سے رابطے تھے۔ 2009 میں امریکی شہر ٹکساس کے فوجی اڈے فورڈ ہڈ پر حملہ کرنے والے ندال حسن اور 2010 میں شہر نیو یارک کےٹائمز اسکوائرمیں دہشت گرد حملے کی سازش میں گرفتار ہونے والے فیصل شہزاد بھی العولقی کے خطبوں سے متاثر ہوئے تھے۔

انٹرنیٹ کے ذریعے انتہا پسند خیالات پھیلانا اتنا آسان کیوں ہے؟ واشنگٹن کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ہوم لینڈ سیکیورٹی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے فرینک سلوفو کہتے ہیں کہ دہشت گرد تنظیمیں ٹکنالوجی ہی نہیں، بلکہ انٹرنیٹ سے متعلق قوانین کی غیر موجودگی کا بھی فائدہ اٹھاتی ہیں۔

سلوفو کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ کا سب سے بڑا فائدہ ہیں کہ اس کے ذریعے دنیا بھر میں ہم خیال لوگ ایک دوسرے سے رابطہ کر سکتےہیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اس سے لوگوں کے رویے مزید پختہ ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ ایک بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اور پھر کچھ ایسے لوگ ہیں جو انگریزی میں بات چیت کر سکتے ہیں۔ جیسے انور العولقی اور عبداللہ الفیصل۔ اس کے علاوہ عمر حمامی جوامریکہ میں رہنے والے صومالی باشندوں کو الشباب کے ساتھ لڑائی میں شامل ہونے کے لیے بھیج رہا ہے۔

لیکن بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران امریکہ میں دہشت گرد کارروائیوں کے منصوبوں میں جوتیزی آتی دیکھی گئی ہے ، وہ وقتی بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

تجزیہ کار جے ایم برگر کا اس بارے میں خیال ہے کہ اعداد و شمار کے لحاظ سے ایک بہت معمولی سا اضافہ ہے۔ ہم چند درجن واقعات کی بات کر رہے ہیں۔ یہ تعداد اتنی کم ہے کہ اتنی کمی بیشی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اسے حقیقت میں اضافہ نہیں سمجھا جا سکتا ۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں کچھ سوچ سمجھ سے کام لینا چاہیے۔

امریکہ میں ہوم گرون ٹیرر یا اندرونی دہشت گردی پر تحقیق کرنے والے جے ایم برگر کہتے ہیں کہ دہشت گرد تنظیمیں اب نہ صرف انٹرنیٹ کی سہولت کا زیادہ موثر استعمال کر رہی ہیں، بلکہ گیارہ ستمبر کے بعد ان کا انداز بیان ہی تبدیل ہو گیا ہے ۔

برگر کا کہناہے کہ 9/11 کے بعد ایک بڑی تبدیلی یہ آئی ہےکہ اب جہادیوں کی توجہ غیر ملکی جنگوں سے ہٹ کر صرف اور صرف امریکہ کے خلاف نفرت پھیلانے پر مرکوز ہو گئی ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ نئی پالیسیوں کو تشکیل دینے کے بجائے امریکہ کی موجودہ پالیسیوں کو ہی مزید شفاف بنانے کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گرد تنظیموں کے منفی پراپیگنڈے کو شکست دی جا سکے ۔

XS
SM
MD
LG