رسائی کے لنکس

اردو کی بقا کے لئے رسم الخط کا تحفظ ضروری : نئی دہلی میں میڈیا اور اردو کے موضوع پر سیمینار


جامعہ ملیہ اسلامیہ میں منعقدہ اس سیمینار میں مقررین اور مقالہ نگاروں نے اس بات پر زور دیا کہ آج ہندوستانی پرائیویٹ نیوز چینلوں میں اردو زبان کا بھرپور استعمال ہو رہا ہے لیکن رسم الخط کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اگر اردو زبان کو بچانا ہے تو رسم الخط کا تحفظ کرنا ہوگا۔


قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے اشتراک سے رحمانیہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام منعقدہ اس سیمینار میں جہاں اس بات کا دعویٰ کیا گیا کہ اردو زبان کا مستقبل تاریک نہیں بلکہ روشن ہے وہیں اس بات پراظہار افسوس بھی کیا گیا کہ ہندوستانی میڈیا میں اردو زبان کا استعمال بڑے پیمانے پر تو ہو رہا ہے لیکن اردو زبان کو نقصان بھی پہنچ رہا ہے۔

ادھرجامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اسلامک سٹڈیز کے سربراہ پروفیسر اختر الواسع نے اس فکر کو اندیشہ ہائے دور دراز قرار دیا کہ اردو کا رسم الخط ختم ہو گیا تو اردو ختم ہو جائے گی۔ انھوں نے یہ دلیل دی کہ اردو کا نام پہلے ہندوی تھا، بعد میں اسے اردوئے معلی کہا گیا، پھر اردو کہا گیا۔ شاعری میں تو اسے ریختہ بھی کہا جاتا تھا۔ اس لیے اس اندیشے کو دل سے نکال دینا چاہیے کہ اردو ختم ہو جائے گی۔

اختر الواسع نے ہندوستان میں اردو کی موجودہ زوال پذیر صورت حال کے لئے دہلی اور لکھنو د دبستان کو ذمے دار قرار دیا اور کہا کہ دہلی اور لکھنوٴ کے درمیان واقع خطے کے مسلمانوں نے اردو کو چھوڑ دیا ہے، جبکہ جنوبی ہند کے مسلمانوں نے اردو کا دامن نہیں چھوڑا۔ انھوں نے کہا کہ دہلی اور لکھنوٴ کے دبستانوں میں اردو آخری سانس لے رہی ہے۔

انھوں نے نیوز چینلوں میں غلط اردو کے استعمال کے بارے میں کہا کہ اس پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر وہ لوگ اردو تلفظ کو بگاڑ رہے ہیں تو اس پر بھی رنجیدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ بہر حال وہ اردو کے الفاظ تو استعمال ہی کر رہے ہیں۔

جامعہ ہمدرد کے سابق استاد اور اندرا گاندھی اوپن یونیورسٹی کے سابق پرووائس چانسلر ڈاکٹر بصیر احمد خاں نے اپنی تقریر میں کہا کہ آج اگر ہندوستان میں اردو کے تحفظ کا کوئی مسئلہ ہے تو اس کو حل کرنا چاہیے لیکن اس پرتشویش نہیں ہونی چاہیے کیونکہ آج پوری دنیا میں اردو بولی جاتی ہے۔

انھوں نے اپنے دورے کے حوالے سے بتایا کہ جنوبی افریقہ میں بھی اردو مرکز قائم ہے اور وہاں کے اساتذہ دینی تعلیم سے قبل اردو کی تعلیم دیتے ہیں اور پھر اردو ذریعہ تعلیم سے مذہبی تعلیم دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دوسرے ملکوں میں بھی اردو کا خاصا چلن ہے۔

تاہم انھوں نے نیوز چینلوں میں اردو زبان کے بگاڑ پر اظہار افسوس کیا اور کہا کہ ا ن چینلوں میں جو زبان استعمال ہوتی ہے وہ اگرچہ اردو آمیز ہے لیکن اس کی شکل بدل دی جاتی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اردو کے مستقبل سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

جامعہ ہمدرد میں شعبہ دینیات کے صدر ڈاکٹر غلام یحییٰ انجم نے ”اردو کے فروغ میں دینی لٹریچر کے کردار“ پر پُر مغز مقالہ پیش کیا اور بتایا کہ اردو کے فروغ میں سب سے زیادہ رول اگر کسی کا ہے تو دینی مدارس کا ہے۔ دینی مدارس کے ذمے داروں اور علما نے اسلامی علوم کو اردو میں منتقل کرکے ا یک تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے اور جب تک اسلام کا اردو سے رشتہ ہے اردو کو کوئی ختم نہیں کر سکتا۔

تاہم انھوں نے اس بات کا دعویٰ کیا کہ جو لوگ دینی مدارس کے تعلیم یافتہ ہیں ان کی اردو دوسروں کے مقابلے میں بہتر ہے۔

سینئر صحافی سید منصور آغا نے ”اردو کے فروغ میں اخبارات کا رول“ کے موضوع پر ایک اہم مقالہ پیش کیا اور ہندوستان میں اردو صحافت کی ابتدا سے لے کر اب تک کی صورت حال کا بہ نظر غائر جائزہ لیا۔ انھوں نے کہا کہ اردو اخباروں نے اردو کے فروغ میں ماضی میں بھی قائدانہ رول ادا کیا تھا اورآج بھی ہزارہا خرابیوں کے باوجوداردو کے فروغ میں اخبارات کی ا ہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

معروف شاعر اور اناؤنسر معین شاداب نے کہا کہ آج نیوز چینلوں میں اردو کے الفاظ کا بھرپور استعمال ہو رہا ہے لیکن رسم الخط کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہاں تک کہ اردو کے بعض چینل بھی اردو زبان کو ہندی رسم الخط میں لکھتے ہیں۔

انھوں نے موجودہ اخبارات میں اردو زبان کے بگاڑ کا بھی شکوہ کیا اور کہا کہ آج تو ایک موضوع یہ بھی ہے کہ اردو کے زوال میں اردو اخباروں کا کیا رول ہے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ اگر اردو رسم الخط کو نہیں بچایا گیا تو اردو کو بچانا بھی مشکل ہو جائے گا۔

سکرپٹ رائٹرغوث سیوانی نے ”الیکٹرانک میڈیا اور ا ردو“ کے عنوان سے اپنے مقالے میں دوسرے ذرائع کے ساتھ ساتھ ہندی فلموں کا بھی جائزہ لیا اور بتایا کہ بیشتر ہندی فلموں کی زبان اردو ہوتی ہے لیکن انہیں ہندی فلمیں کہا جاتا ہے اور انہیں ہندی کا ہی سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے۔

جامعہ ملیہ کے شعبہ ہندی سے وابستہ ڈاکٹر محمد علیم نے ”اردو کے فروغ میں سرکاری اشاعتی اداروں کا حصہ“ کے عنوان سے اپنے مقالے میں ملک کی اردو اکیڈمیوں اور اردو کے سرکاری اداروں کی اردو خدمات کا جائزہ لیا اور بتایا کہ انہیں اردو کی ترویج و ترقی کے لیے جو کام کرنا چاہیے وہ نہیں کر رہے ہیں۔

بعض مقالہ نگاروں نے ہندی نیوز چینلوں میں اردو الفاظ کے استعمال کے تناسب اور ان کی صورت حال کا بھی جائزہ لیا اور بتایا کہ ہندی چینلوں میں جو زبان بولی جا رہی ہے وہ نہ تو ہندی ہے، نہ اردو اور نہ ہی انگریزی۔ وہاں ایک نئی زبان تشکیل پا رہی ہے جس میں ہندی ،اردو اور انگریزی اور بعض اوقات مقامی بولیوں کے الفاظ بھی ہوتے ہیں۔ تاہم ان کی زبان کو اگر اردو کہا جائے تو زیادہ غلط نہیں ہوگا۔ مقالہ نگاروں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ہندی کے نیوز چینلوں میں کم از کم پچیس تیس فیصد الفاظ اردو کے ہوتے ہیں لیکن ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔

مجموعی طور پر اس سیمینار میں اردو کے موجودہ حالات اور میڈیا میں اردو زبان کی صورت حا ل کا بھرپور انداز میں جائزہ لیا گیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اگر اردو رسم الخط کا تحفظ نہیں کیا گیا تو اردو زبان کا تحفظ بھی دشوار ہو جائے گا۔ لہذا اس سلسلے میں اہل اردو کو حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG