رسائی کے لنکس

امریکہ میں 2010کانگریس کے انتخاب کا سال


امریکہ میں 2010کانگریس کے انتخاب کا سال
امریکہ میں 2010کانگریس کے انتخاب کا سال

جمعرات کے روز صدر باراک اوباما امریکی کانگریس کے ریپبلیکن اور ڈیموکریٹک ارکان سے علاج معالجے کے نظام میں اصلاح کے مسئلے پر بات چیت کے لیے ملیں گے۔ دونوں پارٹیوں میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے یہ ان کی تازہ ترین کوشش ہو گی۔ لیکن امریکہ میں 2010 کانگریس میں انتخاب کا سال ہے اور دونوں پارٹیوں کی بیشتر توجہ نومبر میں ایوان نمائندگان اور سینیٹ کی نشستیں حاصل کرنے پر ہے نہ کہ مِل جُل کر کام کرنے پر۔

امریکی کانگریس میں سیاسی چپقلش اور بے بسی کی کیفیت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ بعض قانون سازوں نے طے کیا ہے کہ وہ دوبارہ انتخاب لڑنے کی بجائے ریٹائر ہونے کو ترجیح دیں گے۔ ریاست انڈیانا کے ڈیموکریٹک سینیٹر نے اس بار انتخاب نہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے’’مجھے ریاست انڈیانا کے لوگوں کے لیے کام کرنا اچھا لگتا ہے۔ میں اپنے شہریوں کی مدد کرنا چاہتا ہوں تاکہ وہ اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ کارآمد بنائیں۔ لیکن مجھے امریکی کانگریس اچھی نہیں لگتی۔ ایسے وقت میں بھی جب ہمارے ملک کو انتہائی مشکل چیلنج درپیش ہیں، کانگریس میں لوگوں کی بھلائی کے ضروری کام نہیں ہو رہے ہیں۔‘‘

رائے عامہ کے حالیہ جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکیوں کی بہت بڑی تعداد واشنگٹن میں سیاسی حالات سے یا تو غیر مطمئن ہے یا ناراض ہے ۔

حال ہی میں جب صدر اوباما بالٹی مور میں ایوان نمائندگان کے ریپبلیکن ارکان کے سامنے پیش ہوئے تو انھوں نے اس سوال کو اٹھایا۔ انھوں نے کہا’’لوگوں نے ہمیں واشنگٹن اس لیے نہیں بھیجا کہ ہم آہنی پنجرے جیسی لڑائی لڑتے رہیں اور دیکھیں کہ کون زندہ بچتا ہے ۔ امریکی عوام یہ نہیں چاہتے۔ انھوں نے ہمیں اس لیے واشنگٹن بھیجا ہے کہ ہم مِل جُل کر کام کریں، کچھ کر کے دکھائیں، اور ان مسائل کو حل کریں جن کا انہیں ہر روز سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘

ریپبلیکنز، کانگریس میں تعطل کا الزام ڈیموکریٹس کو دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈیموکریٹس نے یہ وتیرہ بنا لیا ہے کہ وہ ان کی ہر تجویز کو رد کر دیتے ہیں۔ دونوں پارٹیوں میں نظریاتی کشمکش زور شور سے جاری ہے۔ ڈیموکریٹس کا اصرار ہے کہ وفاقی حکومت کو امور مملکت میں اہم رول ادا کرنا چاہیئے جب کہ ریپبلیکنز اس انداز فکر کی سختی سے مخالفت کر تے ہیں۔ ایوان نمائندگان میں ریپبلیکنز کے لیڈر John Boehner نے حال ہی میں واشنگٹن میں قدامت پسند کارکنوں کے ایک گروپ کو خطاب کرتے ہوئے کہا’’میں جانتا ہوں کہ ریپبلیکن کانگریس دو برس میں سب کچھ تبدیل نہیں کر سکتی۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ لیکن ہم پلوسی اور اوباما کے ایجنڈے کو روک سکتےہیں اور یہ کام ہم بہت جلدی کر سکتے ہیں۔‘‘

ماہرین کہتے ہیں کہ واشنگٹن میں سیاسی تعطل کی بہت سی وجوہات ہیں اور یہ کوئی آج کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ بہت دن سے پک رہا ہے۔ Bipartisan Policy Center کےماٹ دالکMatt Dallek کہتے ہیں’’آپ ہفتے کے ساتوں دن 24 گھنٹے میڈیا کی بات کریں، انتخابی حلقوں کی دوبارہ تقسیم کا مسئلہ ہو یا سیاست میں پیسے کا اثر و رسوخ ہو، غرض آپ کو واشنگٹن کے خلاف جو جوش و جذبہ نظر آرہا ہے، اسے یہاں تک پہنچنے میں کئی عشرے لگے ہیں۔‘‘

سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ سیاست میں اتنی شدید مخالفت جو آج کل واشنگٹن میں نظر آ رہی ہے وہ خاصا نیا رجحان ہے۔ ریاست پنسلوینیا کے سابق کانگریس مین Bob Edgar آج کل کامن کاز Common Cause نامی گروپ کے صدر ہیں جو حکومت میں جوابدہی پر زور دیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دونوں پارٹیوں میں فاصلہ بہت بڑھ گیا ہے۔ میں جب کانگریس میں تھا تو کوئی چیز اس وقت تک منظور نہیں ہوتی تھی جب تک ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز مِل جُل کر کام نہ کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے لیے اچھی یاد دہانی ہے کہ ہماری تاریخ میں ایسے ادوار بھی آئے تھے جب پارٹی کی سیاست انتخاب کے دن ختم ہو جاتی تھی، اور آپ ایسے سسٹم میں داخل ہو جاتے تھے جس میں آپ واقعی عوام کے مفاد کے لیے کام کرتے تھے۔

رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ سینیٹر Bayh نے واشنگٹن کے بارے میں جس مایوسی کا اظہار کیا ہے لوگ اس سے متفق ہیں۔ لیکن Bob Edgar کہتے ہیں کہ امریکیوں کو اچھی امیدیں باقی رکھنی چاہئیں اور یہ نہیں سوچنا چاہیئے کہ اس نظام کو بہتر نہیں بنایا جا سکتا۔

لیکن ایسے انتخابی سال میں جب دونوں پارٹیوں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے دونوں پارٹیوں کو قریب لانا شاید ممکن ہو۔ ریپبلیکنز کو امید ہے کہ وہ نومبر میں ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں کچھ نشستیں حاصل کرلیں گے جب کہ ڈیموکریٹس کی کوشش ہے کہ انہیں زیادہ نشتیں نہ حاصل کرنے دیں۔

XS
SM
MD
LG