رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: اوباما نیتن یاہُو ملاقات


نیو یارک ٹائمز کہتا ہے کہ دونوں لیڈروں کے درمیان آٹھ سابقہ ملاقاتوں میں، اسرائیل کو مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے کے بارے میں، کافی اختلاف رہا ہے

صدارتی انتخابات کے رواں سال میں پیر کے روز صدر براک اوباما اور اسرئیلی وزیر اعظم نیتن یاہُو کے درمیان جو ملاقات ہونے والی ہے،’ نُیویارک ٹائمز ‘ کے بقول ا ُس میں ایران کا مسئلہ چھایا رہے گا۔

مسٹر نیتن یاہُو کی توقّع ہے کہ امریکی صدر زیادہ وضاحت کے ساتھ انہیں بتائیں گے کہ اُنہیں ایران کے خلاف سنگین تعزیرا ت اورسفارت کاری سے آنے والے مہینوں کے دوران کیا نتائج برآمد ہونے کی توقّع ہے اور یہ بھی کہ امریکہ کب اور کیسے اس بات کا تعیُّن کرے گاکہ آیا تعزیرات کارگر ثابت ہو رہی ہیں یا ناکام ہو رہی ہیں، اور یہ کہ وہ کس حد تک طاقت کے استعمال کے لئے تیار ہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ عہدہ دار اور تجزیہ کارحالیہ دنوں میں دونوں اطراف کی بحث و تمحیص کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مسٹر اوباما کوایک دوہرا پیغام دینے کا چیلنج درپیش ہے۔وُہ مسٹر نیتن یاہُو کی طرف سے ایران کے نام اس انتباہ میں شامل رہنا چاہتے ہیں کہ وُہ یا تو اپنے جوہری پروگرام سے دست بردار ہو جائے یا پھرفوجی کاروائی کے لئے تیا رہو جائے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وُہ اس بات پر زور دینا چاہتے ہیں کہ فی الوقت فوجی کاروائی روکی جائے، تاکہ تعزیرات اور سفارت کاری کو اثر انداز ہونے کے لئے وقت ملے۔

ایک ممتاز یہود ی لیڈر ابراہام فاکس من کے حوالے سے ’نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ مسٹر اوباما اور مسٹر نیتن یاہُو کے درمیان یہ ملاقات اب تک کی سب سے اہم ملاقات ہوگی جس میں دونو ں کے لئے کامیاب ہونا ضروری ہے ۔سنجیدہ مفاہمت اور حقیقی اعتماد بھی ضروری ہیں جس کا اب تک فقدان رہا ہے۔

’ نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ دونوں لیڈروں کے درمیان آٹھ سابقہ ملاقاتوں میں کافی اختلاف رہا ہے ۔ بالخصوص، اس پر کہ اسرائیل کو مقبوضہ مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے کے علاوہ فلسطینیوں کے ساتھ امن کے فروغ کے لئے کیا کرنا چاہئیے۔ لیکن اس وقت جب پورا خطّہ افرا تفری کا شکار ہے اور امن کا عمل معطّل ہے، دونوں لیڈروں کی پُوری توجّہ ایران کے جوہری پروگرام پر مرکوز ہے۔

افغانستان میں قرآن کی نادانستہ بے حرمتی سے پیدا شدہ حالات پر مائیکل گرسن ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ طالبان نے اس فسوس ناک واقعہ سے ظاہر ہے فائدہ اُٹھایا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کے اندر صدر اوباما کے ناقدین اور افغان جنگ کے مخالفین نے بھی یہی کُچھ کرنے کی کوشش کی ہے۔مثلاً نُیوٹ گِنگرِچ نے اوباما پر ہتھیار ڈال دینے کا الزام لگایا ہے۔

مضمون نگار کاکہنا ہے کہ موجودہ بُحران پر جس دل برداشتگی کا اظہار کیا گیا ہے، وُہ تو سمجھ میں آتا ہے لیکن جیسا کہ برُوکنگس

انسٹی ٹیوٹ کےمائیکل ہینٹن کہتے ہیں یہ ایک غلطی ضرور ہے لیکن قیامت نہیں ہے۔وُہ کہتے ہیں کہ اسلامی دُنیا کے کسی بھی علاقے کے مقابلے میں ا فغانستان میں امریکہ کی مقبولیت تسلسُل کے ساتھ قائم ہے ۔ بعض افغان فوجیوں اور عہدہ داروں کی دغا تکلیف دہ اور نقصان دہ ہے۔ لیکن یہ رُجحان نہ تو عام ہے اور نہ پھیل رہا ہے۔ اور بیشتر افغانوں کو اگر امریکی موجودگی پر غُصّہ ہے، اُنہیں بُہت زیادہ پریشانی اس بات کی ہےکہ کہیں امریکی افغانستا ن سے چلے جانے میں جلد بازی نہ کریں۔

کالم نگار کا کہنا ہے کہ یہ نہ بھولنا چاہئیے کہ اوباما کی کامیاب افغان حکمت عملی کا جتنا اعتراف کیا گیا ہے، حقیقت میں وہ اس سے مستزاد ہے۔ اگرچہ یہ کامیابی اُتنی ڈرامائی نہیں ہے جتنی2008ء میں عراق میں تھی۔ علاوہ ازیں سنہ 2014 کے بعد امریکی اور افغان حکومتوں کے مابین اگرسیکیورٹی کے شعبے میں مضبوط شراکت داری قائم نہ ہو تویہ بات مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اس صورت میں افغانستان دوبارہ انتہا پسندوں کی آماجگاہ بن سکتا ہےجو امریکہ اور ہندوستان کو نشانہ بنا رہے ہیں اور جوہری پاکستان کو مزید غیر مستحکم کر رہے ہیںً ۔ اس لئے اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ آپ وہاں سے جلد بازی میں نکل آتے ہیں یا صبر اور تحمّل کے ساتھ یہ عمل پورا کرتے ہیں۔

ہندوستان کی معیشت کی موجودہ کیفیت پر’وال سٹریٹ جرنل‘ اخبار کہتا ہے کہ ایک وقت تھا جب یہ معیشت بہت گرم تھی لیکن اب یہ نیم گرم ہو گئی ہے، حکومت کی طرف سے جو تازہ اعداد و شمار جاری کئے گئے ہیں، ان کے مطابق 31 دسمبر کو ختم ہونے والی سہ ماہی میں اقتصادی شرح نمُو چھ اعشاریہ ایک تھی۔ یعنی تقریباًً تین سال کے عرصے میں سب سے کم اور یہ ایسی ساتویں مسلسل سہ ماہی تھی ، 31 مارچ کو ختم ہونے والے رواں مالی سال کے لئے حکومت نے چھ اعشاریہ نو فی صد کی پیش گوئی کی ہے، یعنی 9 فی صد کی اُس شرح سےکہیں کم، جو پچھلی دہائی کے آخری حصّے کے دوران تھی اور جس کی وجہ سے ملک کو اُبھرتی ہوئی اقتصادی طاقت کا شُہرہ نصیب ہوا تھا۔

اخبارکہتا ہے کہ شمالی امریکہ اور یورپ کے تناظُر میں لگ بھگ سات فیصد شرح نمو بہت بڑی لگتی ہے لیکن ملک کی فی کس آمدنی کو دیکھتے ہوئے یہ کمزور معلوم ہوتی ہے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG