رسائی کے لنکس

بعث پارٹی کے شبہے میں 600عراقیوں کی گرفتاری، غیر محتاط امر ہے: نیو یارک ٹائمز


بعث پارٹی کے شبہے میں 600عراقیوں کی گرفتاری، غیر محتاط امر ہے: نیو یارک ٹائمز
بعث پارٹی کے شبہے میں 600عراقیوں کی گرفتاری، غیر محتاط امر ہے: نیو یارک ٹائمز

’اِن افراد کو جن میں زیادہ تعداد سنیوں کی ہے، اُس وقت حراست میں لیا گیا جب عراقی حکومت کو لیبیا کے عبوری راہنماؤں نے یہ اطلاع دی کہ بعث پارٹی کے سابق میمبران عراق میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کر رہے ہیں‘

’نیو یارک ٹائمز ‘نے اپنے اداریے میں عراق کی سیاست کو موضوع بنایا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ وزیر اعظم نوری المالکی کی کچھ آمرانہ عادات سے تو اکثر لوگ واقف ہیں، لیکن 600عراقیوں کو صرف اِس شبہے میں گرفتار کرنا کہ اُن کا تعلق صدام حسین کی بعث پارٹی سے ہے، بہت ہی غیر محتاط امر ہے۔

اخبار کے مطابق، اِن افراد کو جِٕن میں زیادہ تعداد سنیوں کی ہے، اُس وقت حراست میں لیا گیا جب عراقی حکومت کو لیبیا کے عبوری راہنماؤں نے یہ اطلاع دی کہ بعث پارٹی کے سابق میمبران عراق میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ گو کہ کچھ سیاسی لیڈر مسٹر مالکی کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ہٹانا چاہتے ہیں، تاہم حکومت کے پاس ابھی اِس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ تختہ الٹنے کی واقعی کوئی سازش کی گئی تھی، اور امریکیوں کو بھی ابھی تک اِس بات کا یقین نہیں ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ صدام حسین کے دور میں شیعہ اکثریت کے ساتھ بہت برا برتاؤ کیا گیا تھا اور چونکہ اب حکومت میں اکثریت اہلِ تشیع کی ہے اور اِن میں سے اکثر لوگ بدلےپر یقین رکھتے ہیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ اگر مسٹر مالکی کے پاس اس بات کے ثبوت ہیں کہ حراست میں لیے گئے کسی فرد نے واقعی جرم کیا ہے تو اُسے شفاف طریقے سے سزا ملنی چاہیئے۔ ورنہ، رہا کر دینا چاہیئے۔

اخبار لکھتا ہے کہ عراقی مسٹر مالکی سے ناخوش ہیں اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی طرف سے ستمبر میں جاری کیے جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت بے حد بد عنوانی ہے، آمرانہ طریقہٴ کار استعمال کر رہی ہے اور شہری سہولیات بگڑ رہی ہیں۔

صدر بش کے دور میں عراق پر حملے کے فوراً بعد جو عبوری حکومت قائم کی گئی تھی اُس نے بعث پارٹی کے ارکان کی سرکاری اداروں میں ملازمت دینے پر پابندی لگادی تھی۔

2008ء میں منظور کیے گئے ایک قانون کے مطابق، بعث پارٹی کے ارکان کے لیے کچھ نوکریاں کھول دی گئی تھیں۔ تاہم، اس قانون پر پوری طرح عمل درآمد نہیں کیا جارہا اور اس کے ذریعے سیاسی مخالفین کو دبایا جارہا ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ امریکہ کا عراق پر اثر و رسوخ ختم ہوتا جارہا ہے۔ تاہم، عراق اب بھی امریکہ سے اسلحہ خریدنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ اس کے فوجیوں کو تربیت بھی فراہم کرے۔اخبار کا کہنا ہے کہ صدر اوباما ان کے مطالبات پورے کرنے سے پہلے مسٹر مالکی پر شرائط عائد کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے غیر محتاط اقدامات بند کریں۔

عراق میں جمہوریت ابھی کمزور ہے اور ملک دوبارہ فرقہ وارانہ فسادات شروع ہونے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

اِس طرح، اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں مصر کی جمہوریت کے بارے میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں کالم نگار نے حال ہی میں قاہرہ کے ایک غریب علاقے پر اپنے دورے کا احوال بیان کیا ہے۔کام نگار لکھتے ہیں کہ وہ یہ جاننا چاہ رہے تھے کہ انقلاب کے بعد وہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں کیا تبدیلی آئی ہے۔ اور اُن کو جواب ملا کہ انقلاب کے بعد سے حالات مزید خراب ہوگئے ہیں، کوئی سکیورٹی نہیں ہے اور کوئی پولیس نہیں ہے۔ یہ جواب اندرونی محلے کی اُن برقع پوش خواتین نے دیا جو کپڑے سی کر اپنی روزی روٹی کماتی ہیں۔

اِن خواتین کا کہنا تھا کہ وہ امن عامہ کی خراب صورتِ حال کی وجہ سے اب راتوں کو گھروں سے باہر نہیں نکلتیں۔

جب اُن سے پوچھا گیا کہ وہ کسی کو ووٹ دیں گی، تو اُنھوں نے اخوان المسلمیں کے امیدوار کا نام لیا۔

کالم نگار لکھتے ہیں کہ جب سکیورٹی کی خراب صورتِ حال کی وجہ جاننا چاہی تو معلوم ہوا کہ پولیس جو صدر حسنی مبارک کے زمانے میں بہت طاقت ور تھی اور اُس سے ہر کوئی ڈرتا تھا، اب نظر نہیں آتی۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ جب سے اُنھوں نے تحریر چوک پر مظاہرین پر کریک ڈاؤن کیا ہے، لوگ اُن سے نفرت کرنے لگ گئے ہیں اور شرمندگی کی وجہ سے اب یہ نظروں سے اوجھل رہنا چاہتے ہیں اور فوجی حکومت اُنھیں منظم کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔

کالم نگار لکھتا ہے کہ پولیس والے بھی مصر کے دوسرے لوگوں کی طرح حال ہی میں ہڑتال پر رہے ہیں۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG