رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: پاک افغان سرحدی خلاف وزیوں کے الزامات


اخبار، نیویارک ٹائمز، افغان عہدہ داروں کے حوالے سے لکھتا ہےکہ شمال مشرقی افغانستان کےدیہات پر، پچھلے ہفتے پاکستانی علاقوں سے، سینکڑوں راکٹ داغے گےٴ ہیں

نیویارک ٹائمز نے پاکستان اور افغانستان کی جانب سے دوسرے پر سنگین سرحدی خلاف ورزیوں کے الزامات کو اپنے ایک اداریے کا موضوع بنایا ہے ۔

اخبار افغان عہدہ داروں کے حوالے سے لکھتا ہےکہ شمال مشرقی افغانستان کےدیہات پر ، جہاں طالبان کے دھڑوں، القاعدہ کے کارندوں، اور دوسرے عسکریت پسندوں کی ایک دوسرے سے مسابقت ہے، سینکڑوں راکٹوں کی بارش ہوئی ہے۔ جو اختتام ہفتہ پاکستانی علاقوں سے داغے گئے تھے اور جس میں کم از کم چار شہری ہلاک ہوئے۔

اخبار کہتا ہے کہ سرحد کے آرپار راکٹوں کی اس بارش سے اُس بڑھتے ہوئے تناؤ کا اندازہ ہوتا ہے، جس پر ایک طرف افغانستان اور امریکہ اور دوسری جانب پاکستان کےدرمیان اتّفاق رائے ہے کہ یہ ایک مسئلہ ہے ،یعنی عسکریت پسندوں کی اس سرحد کے آر پار آمد و رفت ، جس کا وجُود صرف نقشوں پر ہے ۔

دونوں میں سے ہر فریق دوسرے پر اسلامی جنگجوؤں کو برداشت کرنے کا الزام دیتا ہے۔اس کی وجہ سے ، ایسے میں جب امریکہ افغان جنگ سے اپنا دامن چُھڑانےکی جدّوجہد میں مصروف ہے، ان ملکوں کے مابین ایک دوسرےپر سے اعتماد اُٹھتا جا رہا ہے۔ اخبار کے بقول پاکستان کا الزام ہے کہ افغان اور امریکی فوجوں نے پچھلے دو سال سےشمال مشرقی افغانستان کوکم و بیش اپنے حال پر چھوڑ رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستانی طالبان دھڑوں کو اس علاقے میں پناہ مل گئی ہے۔ یہ دھڑے اُس افغان تحریک کی پیداوار ہیں، جن کی توجّہ پاکستانی حکومت کو اپنے حملوں کا نشانہ بنانے پر مرکُوذ ہے۔ اور اخبار کے بقول یہ جنگجُو شُمال مشرقی افغانستان کو سرحد پار حملوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔پچھلے ایک سال کےدوران اس قسم کے 15 حملے ہو چُکے ہیں اور اتوار کے روز پاکستانی فوج کے ایک عہدہ دار کے بقول ان حملوں مین سو زیادہ افراد ہلاک ہو چُکے ہیں۔

اس کےبرعکس افغان اور امریکی عہدہ دار کا عرصے سے پاکستان پر الزام ہے کہ وُہ سرحد کے اُوپر سے لے کر نیچے تک افغان طالبان کو مدد بہم پہنچاتا ہے اور القاعدہ کے جنگوؤں کی چشم پوشی کرتا ہے، جنہوں نے سرحد کے ساتھ ساتھ محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں ۔
اس کے باوجود، اخبار کہتا ہے کہ تینوں ملکوں نے احتیاط سے کام لیتے ہوئے شمال مشرقی افغانستان میں اس غیر مستحکم صورت حال سے فائدہ اُٹھانے سے گُریز کیا ہے۔ جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ علاقہ انتہائی دُور اُفتادہ اور دُشوار گُذار ہے۔ جس کےپہاڑوں میں باقی دنیا سے کٹے ہوئے دیہات ہیں ، اور جہاں جنگجُو آسانی کے ساتھ پناہ گاہیں بنا لیتے ہیں۔چنانچہ اس صورت حال کا کوئی آسان حل ممکن نہیں ہے۔

جنگ کا دائرہ عیسائی اقلیت تک پھیلنے کا خطرہ ۔وال سٹریٹ جرنل کا اداریہ
امریکی اخبار وال سٹریٹ نرنل نے اپنے ایک مراسلے میں شام کی خانہ جنگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کو اپنا موضوع بناتے ہوئے لکھا ہے کہ اب تک اس جنگ کی نوعیت مسلمانوں کی فرقہ واریت سے عبارت تھی، لیکن اب حالات ایسے ہو رہے ہیں کہ اس ملک کے20لاکھ عیسائی بھی اس میں کُود پڑیں گے ، اور اختتام ہفتہ سرکاری فوجوں اور باغیوں کےدرمیان لڑائی کا دائرہ جب دارالحکومت دمشق سےشُمالی شہر حلب تک پھیل گیا ، تو عیسائیوں اور دوسری اقلیّتوں کے لئے اس سے کٹ کر رہنانا ممکن ہو گیا۔

دونوں شہروں میں عیسائیوں اور دوسری اقلیتوں کی آبادی معتد بِہ ہے ۔ اب تک شام کی یہ خانہ جنگی ایک طرف صدر بشارالاسد کی فوجوں اور دوسرے طرف ملک کے سُنّی فرقے تک محدود تھی۔اسد کی سیکیورٹی فوجیں علوی شیعہ فرقے پر مشتمل ہیں، جب کہ ملک کی 2 کروڑ 30 لاکھ کی مجموعی آبادی کا 70 فی صد سنّی فرقے سے وابستہ ہے۔شام کے ان دو وسیع شہری علاقوں میں ان اقلیتوں پر دباؤ پڑ رہا ہے کہ وُہ دو میں سے ایک فریق کا ساتھ دیں۔ کئی عیسائی شہریوں اور حکومت دُشمن سرگرم کار کنوں کا کہنا ہے کہ اسد حکومت اب دمشق میں اُن وفادار لوگوں میں ہتھیار بانٹ رہی ہے، جہاں عیسائی درُوز اور دوسری شیعہ اقلیتیں آباد ہیں۔

عیسائی کُل آبادی کا دس فی صد ہیں اور اخبار کے بقول وُہ عام طور پر یا تو غیر جانب دار رہے ہیں یا پھر عمُومی طور پر اسد حکومت کے حامی، جو اپنے آپ کو ایسی سیکیولر حکومت کہلانے پر مصر ہے جس نے مختلف عقائد کے لوگوں کو متّحد کر رکھا ہے۔ حکومت مخالف سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ اتوار کو دمشق میں سرکاری فوج نے متعدّد حملے کئے جب کہ حلب شہر کے صلاح الدین ضلع کا محاصر ہ کیا گیا۔ شہریوں کو فرار ہونےاور باغیوں کو ہتھیار ڈالنےکا موقع فراہم کیا گیا، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پچھلے چار روز کے اندر د مشق میں روسی ساخت کی کم از کم دو سو کلاشکوف بندوقیں عیسائیوں میں بانٹی گئیں۔

امریکی حکومت میں اسلامی بنیاد پرستوں کی موجودگی کا الزام۔ لاس اینجلس ٹائمز کا اداریہ
امریکہ میں قدامت پسندوں کی ایک معمولی سی تعداد کا خیال ہے کہ اسلامی انتہا پسند ا مریکی حکومت کے بُہت اندر تک گُھسنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

اس پر اخبار لاس اینجلس ٹائمز کہتاہے کہ یہ سراسر غلط ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ 1950 کی دہائی میں سینیٹر جو میکارتھی ااور دوسرے کمیونسٹ دُشمن عناصر کو ہربستر کی نیچے اور محکمہء خارجہ میں کمیونسٹ گُھسے ہوئے نظر آتے تھے اور آج کل اسی قسم کےگنتی کے چند قدامت پسندوں کو امریکی حکومت کے بُہت اندر تک اسلامی بُنیاد پرست گُھسے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

ریپبلکن رکن کانگریس میشیل باخ من کی طرف سےمحکمہء خارجہ کی ایک عہدہ دار کے خلاف اسی قسم کی الزام تراشی کی تردید میں سینیٹر جان میکین نے جو بیان دیا ہے ، اُسے اخبار نے ایسی جرات مندی سے تعبیر کیا ہے۔ جس سے دوسرے قدامت پسند پنے آپ کو اس قسم کی بنیادسازشوں کی تھیوریوں سے باز رکھ سکتے ہیں۔

اخبار نے جان میکین کے علاوہ سپیکر جان بینر کی بھی اس پر تعریف کی ہے کہ انہوں نے وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کی ڈپٹی چیف آف سٹاف ہُما عابدین کے خلاف ان الزامات کو مسترد کیا کہ ان کا تعلّق اخوان المسلمین سے رہا ہے۔
XS
SM
MD
LG