رسائی کے لنکس

نئی برطانوی حکومت اور افغانستان میں جاری جنگ


برطانیہ کے نئے وزیرِ خارجہ نے واشنگٹن میں امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن سے ملاقات کی ہے۔ ان کے درمیان بات چیت میں جو موضوع سرِ فہرست تھے ان میں افغانستان میں برطانوی اور امریکی فوجوں کی مشترکہ کارروائیاں، ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے خلاف ممکنہ یک طرفہ پابندیاں اور یورپ میں اقتصادی استحکام کی بحالی شامل ہیں۔

حالیہ مہینوں کے دوران امریکی اور برطانوی فوجوں نے جنوبی افغانستان میں کئی مشترکہ کارروائیاں کی ہیں۔ لندن کے رائل یونائیٹد سروسز انسٹی ٹیوٹ کے تجزیہ کار میلکم کالمرس کہتے ہیں کہ یہ کارروائیاں نئی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ ’’آج کل ان کی کارروائیوں کا بنیادی مقصد طالبان کے زور کو توڑنا ہے کیوں کہ عام خیال یہی ہے کہ گذشتہ چند برسوں کے دوران طالبان کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ہے اور انھوں نے نیٹو کو اپنا دفاع کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔‘‘

صدر اوباما کے مزید 30,000 امریکی فوجی افغانستان بھیجنے کی وجہ یہی ہے۔یہ اقدام اس حکمت عملی کا حصہ ہے جو افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل سٹینلی میکرسٹل نے تیار کی ہے ۔ برطانوی فوج کے سابق سربراہ جنرل رچرڈ ڈاننٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ منصوبہ بہت اچھا ہے۔ ’’بعض علاقوں سے طالبان کا صفایا کرنا، کافی فوجوں کی موجودگی سے ان پر کنٹرول برقرار رکھنا اور پھر وہاں لوگوں کے لیے بہتر حالاتِ زندگی پیدا کرنا، صحیح طریقہ کار ہے۔ پورے جنوبی افغانستان میں، برطانوی فوج، امریکی فوج اور امریکی میرین فوجیوں کے ذریعے اس طریقے پر عمل کیا جانا چاہیئے۔‘‘

ڈاننٹ کہتے ہیں کہ اس کارروائی کا ایک حصہ وہ حملہ ہے جو جنوبی افغانستان کے سب سے بڑے شہر قندھار پر کیا جانا ہے ۔ قندھار طالبان کا گڑھ ہے۔ اگر طالبان ملک پر کنٹرول رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں قندھار پر کنٹرول بر قرار رکھنا ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ طالبان کا مقابلہ کرنا انتہائی اہم ہے۔’’حقیقت یہ ہے کہ طالبان القاعدہ کا ہی دوسرا نام ہے اور القاعدہ عسکریت پسند اسلامی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ اگر ہم نے اس کا مقابلہ نہ کیا اور جنوبی افغانستان یا افغانستان سے یا جنوبی ایشیا سے اس کا صفایا نہ کیا تو پھر اس کا اثر و رسوخ دوسرے علاقوں میں پھیل جائے گا۔‘‘

افغانستان کے لیے جو حکمت عملی تیار کی گئی ہے اس کا بنیادی جزو یہ ہے کہ افغان آبادی کے دِل جیتے جائیں۔اینڈی بیارپرک پرائیویٹ سکیورٹی کمپنیوں کی برطانوی ایسوسی ایشن کے سربراہ ہیں۔ ان میں سے بہت سی کمپنیاں افغانستان میں کام کرتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگوں کو اپنا مخالف بنائے بغیر فوجی کارروائی کرنا بڑا مشکل کام ہے۔’’ہم نے دیکھا ہے کہ اگر کسی کارروائی کے دوران بے گناہ سویلین باشندے ہلاک ہو جائیں تو اس کے نتائج کتنے خراب ہوتے ہیں۔ تمام لوگ آپ کے خلاف ہو جاتے ہیں اور شورش کے اصل علاقے سے بہت دور تک لوگوں میں بغاوت پھیل جاتی ہے ۔‘‘

لیکن وہ کہتے ہیں کہ سکیورٹی بے حد اہم ہے۔ جب تک سکیورٹی نہ ہو آپ کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو باغیوں کا کام نسبتاً آسان ہے ۔آپ جتنے بجلی گھر چاہیں بنا لیں۔ اس کام میں وقت لگتا ہےلیکن صرف چند سیکنڈوں میں انہیں تباہ کیا جا سکتا ہے ۔

رائل یونائیٹد سروسز انسٹیٹیوٹ کے میلکم کالمرس کہتے ہیں کہ ایک چیز جس کی کوشش کی جا چکی ہے اور جسے شاید پھر آزمانا چاہیئے وہ یہ ہے کہ اعتدال پسند طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔’’ایک چیز جس پر ہم نے کافی توجہ نہیں دی ہے وہ یہ ہے کہ افغانستان کی سیاست کی پیچیدگیوں کو سمجھا جائے اور کسی سیاسی سمجھوتے کی کوشش کی جائے جس میں افغان معاشرے کے ان عناصر کو شامل کیا جائے جن کو نمائندگی کا موقع نہیں ملا ہے ۔‘‘

اگرچہ برطانیہ میں عام لوگوں میں افغانستان میں کامیابی کے امکانات کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں لیکن کالمرس کے خیال میں نئی حکومت جسے اسی ہفتے اقتدار ملا ہے کوئی بڑی تبدیلیاں نہیں کرے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ جب تک امریکی فوجی بڑی تعداد میں افغانستان میں موجود ہیں، برطانیہ وہاں سے اپنی فوجیں واپس نہیں بلائے گا، اگرچہ اس بوجھ کو کم کرنے کے لیے خاصا سیاسی دباؤ پڑ رہا ہے ۔

کالمرس کہتے ہیں کہ اگلے برس کیا ہو گا، اس کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ ہر کوئی یہ پوچھ رہا ہے کہ اگلے سال کے وسط کے بعد امریکہ کیا موقف اختیار کرے گا۔ یہی وہ وقت ہے جب صدر اوباما کے بیان کے مطابق امریکہ اپنی فوجیں واپس بلانا شرو ع کر دے گا لیکن کوئی نہیں جانتا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔

افغانستان میں کمانڈرز کہتے ہیں کہ جولائی 2011 تک یعنی فوجوں کی واپسی شروع کرنے کی تاریخ تک انہیں یہ اندازہ ہو جائے گا کہ نو تربیت یافتہ افغان فوج اور پولیس کو ملک کو محفوظ بنانے کے لیے کتنی مدد کی ضرورت ہو گی اور کیا مغربی فوجیں بڑی تعداد میں افغانستان سے واپسی شروع کر سکتی ہیں یا نہیں۔

XS
SM
MD
LG