رسائی کے لنکس

وزیرِ اعلیٰ مریم نواز کی سیاسی حکمتِ عملی؛ ’اگر پی ٹی آئی نے مزاحمت کی تو سختی سے نمٹا جائے گا‘


  • ماہرین کے مطابق مریم نواز کے لیے اب یہی امتحان ہو گا کہ وہ اپوزیشن کی سیاست سے نکل کر اقتدار کی سیاست کس طرح کرتی ہیں۔
  • محمد زبیر کہتے ہیں کہ مریم نواز نے اپنے والد سے بہت کچھ سیکھا ہے لیکن اب وہ بدل گئی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں بہت کچھ تبدیل ہوا ہے۔
  • ماہرین کے مطابق پنجاب اسمبلی میں مضبوط اپوزیشن مریم نواز کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔

’’یہ 2017 کی بات ہے جب مریم نواز پاناما پیپرز پر بننے والی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے جا رہی تھیں۔ میں وزیرِ اعظم ہاؤس میں نواز شریف اور کلثوم نواز کے ساتھ بیٹھا تھا جہاں میں نے کہا تھا کہ دیکھیے مائنس ون کرنے والے پلس ون کر رہے ہیں۔‘‘

سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے قریبی ساتھی سینیٹر عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ اس دن جے آئی ٹی پیشی کے بعد مریم نواز نے جس طرح میڈیا سے بات کی تھی وہ کارزار سیاست میں ان کا پہلا کامیاب معرکہ تھا جس پر ان کے والدین بھی بہت خوش تھے اور وہیں سے مریم کے لیے نئی سیاسی منزلوں کا آغاز ہو گیا تھا۔

عالمی میڈیا میں مریم نواز کی پہلی جھلک اس وقت سامنے آئی تھی جب انہوں نے 1999 میں اپنے والد کی معزولی کے بعد ایک انٹرویو میں آرمی چیف جنرل پروز مشرف کے اقدام کو نہ صرف غلط قرار دیا تھا بلکہ ساتھ ہی یہ تنبیہ بھی کی تھی کہ بہت جلد وہ اس کی وجہ سے مشکل میں ہوں گے۔

اپنے والد کی جلا وطنی اور بعدازاں 2007 میں وطن واپسی کے بعد مریم نواز سیاسی منظر نامے پر نظر نہیں آئیں۔ 2013 میں نواز شریف جب تیسری مرتبہ ملک کے وزیرِ اعظم بنے تو اسی برس نومبر میں مریم نواز کو وزیرِ اعظم یوتھ پرگروام کی چیئرپرسن بنایا گیا۔

یہ حکومت میں ان کا باقاعدہ پہلا عہدہ تھا اگرچہ اس سے پہلے بھی ایک آدھ بار وہ پنجاب میں اپنے چچا شہباز شریف کی حکومت کی ایک اسکیم کے تحت لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی تقریبات میں بھی شریک ہو چکی تھیں۔

اسی دور میں ان کی نگرانی میں میڈیا سیل نے کام شروع کیا۔ اس میڈیا سیل کا حصہ رہنے والے سابق گورنر سندھ محمد زبیر بتاتے ہیں کہ اس سیل کے قیام کا مقصد نواز شریف حکومت کے خلاف عمران خان اور تحریکِ انصاف کی سوشل میڈیا مہم کا توڑ کرنا تھا جس کی وجہ سے اس وقت کی حکومت بہت پریشان تھی۔

اس اعتبار سے عمران خان اور ان کی پارٹی سے متعلق مریم نواز کی جارحانہ حکمتِ عملی کا آغاز بھی اسی وقت گیا تھا۔

سن 2016 میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد مریم نواز اپنی جماعت کی اسٹار کمپینر بن کر سامنے آئیں۔ انہوں نے لاہور میں اپنی والدہ کی کام یاب انتخابی مہم چلائی۔ اپنے والد کے ساتھ مقدمات کا سامنا کیا اور سزا کے بعد وطن واپس آ کر اس وقت گرفتاری دی جب ان کی والدہ لندن میں زیرِ علاج تھیں۔

مریم نواز 2017 میں پاناما اسکینڈل میں اپنے والد کے خلاف بننے والی جے آئی ٹی میں پیش ہوئیں۔
مریم نواز 2017 میں پاناما اسکینڈل میں اپنے والد کے خلاف بننے والی جے آئی ٹی میں پیش ہوئیں۔

مریم نواز کو کیسز میں سزا کے ساتھ ساتھ کوئی سرکاری عہدہ رکھنے کے لیے بھی نااہل قرار دیا گیا۔

وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت کے دوران اکتوبر 2020 میں ایک جلسے کے بعد کراچی میں مبینہ طور پر خفیہ اداروں کے اہل کاروں نے ایک ہوٹل میں اس کمرے پر دھاوا بول دیا جہاں مریم نواز قیام پذیر تھیں۔

اس پس منظر کے ساتھ مریم نواز نے ایسے حالات میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی باگ ڈور سنبھالی ہے جب انتخابی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحریکِ انصاف اب بھی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی سب سے بڑی سیاسی حریف کے طور پر موجود ہے۔

اس لیے مبصرین کے نزدیک یہ سوال اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ سیاسی کردار میں پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنے والی مریم نواز بطور وزیرِ اعلیٰ اس حریف کے بارے میں کیا حکمتِ عملی رکھیں گی؟ اور پنجاب میں اپنی جماعت کی سیاسی اسپیس دوبارہ بحال کر پائیں گی؟

’حالات پہلے سے بدل چکے ہیں‘

مریم نواز کے وزیرِ اعلیٰ بننے کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے بھی اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بطور حکمران پنجاب سے اپنے سفر کا آغاز کیا ہے۔ ان کے چچا شہباز شریف بھی اسی راستے سے وزارتِ عظمی کے منصب تک پہنچے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے لاہور کے سینئر صحافی پرویز بشیر کا کہنا ہے کہ نواز شریف نے اپنے کریئر کا آغاز 1980 کی دہائی کے آغاز میں پنچاب کے ایکسائز کے وزیر کے طور پر کیا تھا۔ بعد میں وہ وزیرِ خزانہ بنے اور پھر 1985 میں صوبے کے وزیرِ اعلیٰ بنے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف بطور وزیرِ اعلیٰ ڈویلپمنٹ کا کلچر لے کر آئے اور تعمیراتی منصوبوں کی وجہ سے انہیں مقبولیت ملی۔ ساتھ ہی تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بھی انہوں نے کام کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور بعد میں شہباز شریف نے بیورو کریسی سے کام لینے کا ماڈل بنایا اور اس میں کام یاب رہے۔ اس وقت کیوں کہ ملک میں ٹو پارٹی سسٹم تھا تو انہیں صرف پیپلز پارٹی ہی کا سامنا تھا لیکن دونوں بھائیوں ںے اپنی کارکردگی سے پنجاب میں جگہ بنائی۔

پرویز بشیر کہتے ہیں کہ اب حالات اس وقت کے مقابلے میں بہت بدل گئے ہیں۔ گزشتہ دور میں وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار کی کارکردگی اور اہلیت پر کڑی تنقید کی گئی اس کے باجود پی ٹی آئی صوبے کی بڑی سیاسی قوت کے طور پر موجود ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو پڑنے والے ووٹوں کی اصل وجہ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ ہے جس وقت مسلم لیگ (ن) نے یہ بیانیہ اختیار کیا تھا تو اسے بھی اس کا فائدہ ہوا تھا۔

’مریم نواز بدل گئی ہیں‘

محمد زبیر کہتے ہیں کہ مریم نواز ایک بہادر لیڈر ہیں۔ اپوزیشن کے دنوں میں جب وہ مزاحمت کی سیاست کر رہی تھیں تو انہوں نے کئی مواقع پر خطرات اور تھریٹ الرٹس کے باوجود جلسے کیے اور لوگوں سے ملیں۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ مریم نواز کے لیے اب یہی امتحان ہو گا کہ وہ اپوزیشن کی سیاست سے نکل کر اقتدار کی سیاست کس طرح کرتی ہیں۔

محمد زبیر کہتے ہیں کہ مریم نواز نے اپنے والد سے بہت کچھ سیکھا ہے لیکن اب وہ بدل گئی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں بہت کچھ تبدیل ہوا ہے۔

ان کے بقول ’’مجھے پی ٹی آئی سے سب سے بڑی شکایت یہ تھی کہ وہ سیاسی مخالفت کو دشمنی کی طرح دیکھتے ہیں۔ وہ اپنے مخالف کی کوئی خوبی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برسوں میں بدقسمتی سے ہم (مسلم لیگ (ن) والے) بھی انہیں کی طرح ہو چکے ہیں۔ گزشتہ حکومت میں جس نے بھی افہام و تفہیم کی سیاست کی بات کرنے کی کوشش کی اس کی بات نہیں سنی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز نے اپنے جلسوں پی ٹی آئی کو دہشت گرد جماعت کہا ہے اور ان سے ویسا ہی سلوک کرنے کی بات کرتی رہی ہیں۔ پھر وہ نو مئی اور 28 مئی والوں کی تقسیم کرتی ہیں۔ اس طرح ہماری سیاست جو پہلے ہی شدید تقسیم کا شکار ہے اس میں تقسیم مزید بڑھ گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے حالات میں ہونے والے انتخابات کے بعد پنجاب میں مریم نواز کی جو حکومت بنی ہے اسے ایک مضبوط اپوزیشن کا سامنا ہے۔ بڑی تعداد میں پی ٹی آئی ارکان اسمبلی میں ہیں اور ان کی جماعت بھی اب نو مئی کے بعد ہونے والے کریک ڈاؤں کے اثرات سے نکل چکی ہے۔ اس لیے یہ ارکان اسمبلی میں خاموش نہیں بیٹھیں گے۔

سابق گورنر کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں ہم ایک 'ہائبرڈ نظام' کا حصہ بن رہے ہیں جس میں اصل لڑائی اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان ہے۔ ایسے حالات میں اگر پی ٹی آئی کے لوگ پنجاب میں مزاحمت کرتے ہیں تو مریم ان سے سختی سے نمٹیں گی۔

ان کا کہنا ہے نو مئی کے بعد ہونے والے کریک ڈاؤن کے باوجود پی ٹی آئی کو پڑنے والے ووٹوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے ان کارروائیوں سے ان کی مقبولیت بڑھی۔ اس لیے وزیرِ اعلیٰ مریم نواز بھی یہ پالیسی اختیار کرتی ہیں تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس سے انہیں کتنا سیاسی فائدہ ملے گا۔

کس کی سیاست اسٹیک پر ہے؟

مریم نواز نے 26 فروری کو بطور وزیرِ اعلیٰ اپنے انتخاب کے بعد جو تقریر کی اس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کے دل میں کسی کے لیے انتقام کا جذبہ نہیں ہے۔ سیاسی مبصرین نے بھی اسے مفاہمانہ پیغام کے طور پر دیکھا ہے۔

محمد زبیر کا کہنا ہے کہ یہ مفاہمانہ پیغام ضرور ہے لیکن جب بھی کوئی لیڈر بہت جارحانہ مہم کے بعد کام یاب ہوتا ہے تو عام طور پر شروع میں ایسا ہی پیغام دینے کی کوشش کرتا ہے۔

ان کا کہنا ہے جس نے بھی مریم نواز کو اپنی تقریر میں یہ لہجہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہو گا اس کے پاس یہی دلیل ہو گی کہ آپ نرمی دکھائیں تو آپ ہی کے لیے ابتدا میں آسانی ہو گی۔

تاہم ان کا کہنا کہ اصل مسئلہ تو حقائق کا ہے بیانات کا نہیں۔ زمین پر ان کی پالیسی کیا ہو گی اصل اہمیت اس بات کی ہے۔

محمد زبیر نے کہا کہ اس وقت پنجاب میں بھی سب سے بڑا چیلنج شاید یہی ہو گا کہ اپوزیشن آپ کو غصہ دلا کر مسائل پر توجہ دینے کے بجائے آپ کو دوسرے راستے پر ڈال دے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ مریم نواز کو اپنے والد اور چچا کے دور سے بہت مختلف حالات کا سامنا ہے۔ انہیں منصوبے بنانے اور عوام کو ریلیف کے وعدوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے وہ آزادی حاصل نہیں ہو گی جو ان کے والد اور چچا کو حاصل تھی۔ کیوں کہ اس وقت ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے اور بہت سے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے درکار وسائل ان کی منظوری سے مشروط ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ سن 2022 میں جب وزیرِ اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے 200 یونٹ بجلی مفت کرنے کے اعلان کیا تھا تو آئی ایم ایف کی وجہ سے وہ اس پر عمل درآمد نہیں کرا سکے تھے۔

پرویز بشیر کہتے ہیں کہ ان مسائل کے باجود مریم سے زیادہ شہباز شریف کی سیاست داؤ پر لگی ہے۔ کیوں کہ اگر مریم صوبے کی سطح پر تعمیر و ترقی کے منصوبے شروع کرتی بھی ہیں تو لوگوں کو بنیادی ضروریاتِ زندگی سے متعلق جن مشکلات کا سامنا ہے ان کا حل وفاقی حکومت کے پاس ہے۔ مثلاً ڈالر اور تیل کی قیمتیں نیچے لانے جیسے اقدامات تو وفاقی حکومت کے اختیار میں ہیں۔

سیاسی وراثت کی منتقلی؟

اس سوال پر کہ کیا پنجاب میں شریف خاندان کی سیاسی وراثت نواز شریف سے مریم نواز کو منتقل ہو گئی ہے اور شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ اب مرکز ہی کی سیاست کریں گے؟ پرویز بشیر کا کہنا تھا کہ دراصل مسلم لیگ (ن) کو جو مینڈیٹ ملا ہے اس نے انہیں اس نئے سیٹ اپ پر مجبور کیا ہے۔ لیکن اب دونوں کی سیاسی بقا ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔

تاہم محمد زبیر کہتے ہیں کہ پارٹی میں بہت پہلے سے غیر اعلانیہ طور پر یہ طے تھا کہ مریم کے باقاعدہ سیاسی کریئر کا جب بھی آغاز ہو گا تو پنجاب ہی سے ہو گا جس طرح ان کے والد نے کیا تھا۔ تاہم ان کے سامنے جو چیلنجز ہیں وہ ان کے والد کے مقابلے میں مختلف ہیں۔

پرویز بشیر کا کہنا ہے ماضی میں جب شہباز شریف نے کارکردگی دکھائی ہے تو اس کے پیچھے نواز شریف کی وفاقی حکومت ہوتی تھی۔ اب اس ماڈل کو شہباز شریف کو آگے لے کر بڑھنا ہے۔

بعض سیاسی مبصرین پاکستان اور پنجاب جیسے مردوں کی برتری رکھنے والے معاشرے میں والد کی سیاسی وراثت بیٹی کو منتقل ہونے کو بھی علامتی طور پر اہم قرار دیتے ہیں۔

اس سے پہلے سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی جانشین بن کر سامنے آئی تھیں اور ان سے بھی پہلے بانی پاکستان محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح نے اس وقت صدارتی انتخاب میں جنرل ایوب خان کا مقابلہ کیا تھا جب ملک میں مارشل لا نافذ تھا۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ان دونوں رہنماؤں پر بعض مذہبی رہنماؤں اور سیاسی مخالفین کی جانب سے فتوؤں اور کردار کشی کی مہم کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

سینیٹر عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست کم از کم اس اعتبار سے ارتقا پذیر ہوئی ہے کہ اگرچہ مریم کو شدید سیاسی مخالفت کا سامنا رہا ہے لیکن کسی نے خاتون ہونے کی وجہ سے ان کے سیاست کرنے کے حق پر کوئی سوال نہیں اٹھایا ہے۔

سیاسی تجربہ؟

نواز شریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پنجاب کی سیاسی حرکیات اور حلقے کی سطح پر پائے جانے پائے جانے والی سیاسی باریکیوں کو بہتر انداز میں سمجھتے ہیں اس لیے انہوں نے ایک طویل مدت تک پنچاب کو اپنا سیاسی قلعہ بنائے رکھا۔

سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ مریم نواز کو عام طور پر سیاسی ناتجربے کاری، نچلی سطح پر سیاسی رابطے نہ ہونے اور حلقے کی سیاست نا سمجھنے جیسے اعتراضات کیے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یقیناً بطور وزیرِ اعلیٰ مریم نواز کو ایک کڑے سیاسی امتحان کا سامنا ہے اور کارکردگی کے ساتھ ساتھ انہیں سیاسی رابطوں کو بھی مضبوط کرنا ہو گا۔

ان کے بقول، لیکن مریم پر سیاسی ناتجربے کاری کا اعتراض کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ مریم نواز شریف ایک برس تک پارٹی چیف آرگنائزر رہی ہیں۔ اس عرصے میں انہوں نے ایک بھرپور مہم چلائی ہے جس کی وجہ سے وہ گراس روٹ سطح پر قیادت سے رابطے بڑھے ہیں۔ سب سے بڑھ کر لوگ انہیں بہادر سمجھتے ہیں اور انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کراؤڈ پلر بھی ہیں۔

ان کے بقول، سیاست میں مریم کے لیے جہاں چیلنجز ہیں وہاں امکانات کی بھی کمی نہیں۔

سینیٹر عرفان صدیقی کی رائے ہے کہ مریم اپنے والد اور چچا سے بعض مختلف خصوصیات رکھتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ نواز شریف کے دورِ حکومت سے مریم نواز کو دیکھ رہے ہیں۔ ان کی ایک انفرادیت ہے کہ جو ٹاسک بھی انہیں دیا جائے وہ اس پر بہت باریک بینی سے اور تفصیلی ہوم ورک کرتی ہیں۔

عرفان صدیقی نے بتایا کہ وزیرِ اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد پنجاب اسمبلی میں پہلی تقریر پر انہوں نے بہت محنت سے کام کیا اور اپنی گفتگو کا سارا مواد خود تیار کیا۔

عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ اگر مریم نوجوانوں اور خواتین سے متعلق اعلان کردہ منصوبوں پر عمل کر پائیں اور بیورو کریسی کے سرخ فیتے کو قابو کرکے اپنے اہداف حاصل کر لیے تو انہیں ایک مقبول وزیرِ اعلیٰ بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

مسلم لیگ (ن) کی جانب سے یہ باور بھی کرایا جاتا ہے کہ مریم نواز کو اپنے والد کی رہنمائی حاصل ہوگی اور وہ ان کے سیاسی اور انتظامی تجربے سے فائدہ اٹھائیں گی۔

ایسی صورت میں ان کی بہتر یا خراب کارکردگی میں بھی نواز شریف حصہ دار ہوں گے یا نہیں؟

اس پر پرویز بشیر کہتے ہیں کہ یہ ایک پیچیدہ بات ہے۔ اگر پنجاب میں ان کو مرکز کی سپورٹ ملتی ہے تو کامیابی کا کریڈت مریم کے ساتھ ساتھ ان کے چچا اور والد کو بھی ملے گا۔ اسی طرح اگر صوبے میں کارکردگی پر سوال اٹھے تو رد عمل بھی ملا جلا ہو گا۔

ان کا کہنا ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے سیاسی مستقبل کا انحصار اب صرف صوبائی حکومت پر نہیں بلکہ وفاق میں شہباز شریف کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

فورم

XS
SM
MD
LG