رسائی کے لنکس

سو سال پہلے ہونے والا ہولناک قتل جس نے تفتیش کا طریقہ بدل دیا


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

  • دوستی سے شروع ہونے والا تعلق ایک ہولناک جرم پر ختم ہوا۔
  • قتل کی اس ہولناک واردات کا سراغ آج سے 100 برس قبل لگایا گیا تھا لیکن اس کے بعد پولیس کے لیے تحقیقات کے کئی نئے قواعد بنے۔

دو مئی 1924 کو لندن کے واٹر لو اسٹیشن پر پولیس نے ایک مشتبہہ شخص کو گرفتار کیا۔ اس گرفتاری کے بعد ایک ہولناک قتل کا کیس حل ہونے والا تھا۔ تاہم اس کیس میں قاتل کا سراغ ملنے کے ساتھ ایک ایسی تاریخی پیش رفت بھی ہونے والی تھی جس کے نتیجے میں جرائم کی تفتیش کے لیے کچھ نئے اصول متعین ہونے جا رہے تھے۔

اس کہانی کا مرکزی کردار ہربرٹ ماہن ایک سیلز مین تھا۔ 1910 میں 23 سال کی عمر میں اس کی شادی جیسی ہنا نامی لڑکی سے ہو گئی تھی۔ اس شادی سے اس کے دو بچے بھی تھے۔

شادی کے بعد بھی ہامن خواتین کے تعاقب میں رہتا تھا۔ شادی کے صرف ایک سال بعد ہی اپنے ساتھ ایک ہفتہ گزرانے والی ایک لڑکی کو جعلی چیک دینے کے جرم میں ہامن کو ایک سال قید کی سزا ہوئی تھی۔ 1916 میں چوری کی کوشش کے دوران ماہن ایک گھریلو ملازمہ پر حملے کی وجہ پانچ سال قید رہا۔

رہائی کے بعد ماہن نے سوڈا بیچنے والی ایک کمپنی میں سیلز مین کا کام شروع کر دیا۔ اپنی اس ملازمت کے دوران لندن میں اس کی ملاقات ایک کاروباری شخصیت کی سیکریٹری مس ایملی بیلی کائے سے ہوئی۔

ماہن اور کائے کے درمیان قربتیں بڑھنے لگیں۔ اگرچہ کائے کو یہ معلوم ہو گیا تھا کہ ماہن پہلے سے شادی شدہ ہے اور اس سے ملاقات سے قبل وہ ایک خاتون تشدد میں ملوث بھی رہا ہے۔ اس کے باوجود کائے نے ماہن کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھائے اور اسے شادی پر آمادہ کرکے جنوبی افریقہ جانے پر آماد کیا۔

ماہن اپنی بیوی بچوں کو چھوڑنا نہیں چاہتا لیکن اس نے کائے سے بھی قطع تعلق نہیں کیا تھا۔ کائے کی جانب سے شادی پر اصرار بڑھ رہا تھا اور کائے مستقل اسے ٹال رہا تھا۔ لیکن جب کائے نے اس کی بات سمجھنے سے انکار کردیا تو اس نے ایک انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ کرلیا۔

سولہ اپریل 1924 کو ماہن جب کائے سے اس کے گھر ملنے گیا تو دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہو گئی اور لڑائی اتنی بڑھی کے ماہن نے کائے کو قتل کر ڈالا۔

قتل کے بعد ماہن پر ہر سفاک مجرم کی طرح بوکھلاہٹ طاری ہو گئی اور اس نے اپنے جرم کے شواہد مٹانا شروع کردیے۔

ماہن نے کائے کی نعش کو ٹھکانے لگانے کے لیے اس کے کئی ٹکٹرے کیے۔ اس کے جسم کے بعض حصوں کو ابال کر ختم کرنے کی کوشش کی اور بعض کو آگ میں جلا دیا۔

ادھر ماہن کی بیوی جیسی کو پہلے ہی ماہن کے مسلسل گھر سے غائب رہنے اور اس کی حرکتوں کی وجہ سے اس پر شک ہوگیا تھا۔ اس نے اپنے شوہر کے سامان اور کپڑوں کی چھان بین شروع کردی۔ جیسی کو ماہن کے کپڑوں سے ریلوے کے ذریعے سامان بک کرانے کا لگیج ٹکٹ ملا۔

اس ٹکٹ نے جیسی کے شک کو مزید بڑھاوا دیا کہ ماہن یہ ٹکٹ جس علاقے کے لیے تھا وہ اس کے کام کی جگہ یا معمول سے بالکل ہٹ کر تھا۔ اس نے مزید کھوج لگانے کے لیے ریلوے پولیس میں کام کرنے والے اپنے ایک دوست کو یہ ٹکٹ دے دیا کہ وہ اس قصے کا پتا کرے۔

جیسی کے دوست نے یکم مئی کو اس ٹکٹ پر بک ہونے والا سامان واٹر لو اسٹیشن سے حاصل کر لیا۔ لیکن جب سامان کی مزید پڑتال کی تو معلوم ہوا کہ اس میں خون کے دھبوں والے کپڑے اور ایک بڑی چھری موجود ہے۔ جیسی کے دوست نے فوراً پولیس کو اطلاع کردی اور اگلے ہی روز دو مئی 1924 کو پولیس نے ماہن کو ریلوے اسٹیشن سے حراست میں لے لیا۔

گرفتاری کے فوری بعد ماہن نے کائے کو قتل کرنے کا اعتراف کرلیا لیکن ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا کہ دونوں کے درمیان ہونے والے جھگڑے میں کائے نے اس پر کلہاڑی سے حملہ کیا تھا جس پر اس نے کائے کو پیچھے دھکیلا جس پر وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور کوئلوں کی بالٹی سے ٹکرا کر اس کی موت واقع ہوگئی۔

اس نے پولیس کو اس بنگلے کا پتا بھی بتایا جہاں کائے کا قتل ہوا تھا۔ پولیس نے جب جائے وقوعہ پر تحقیقات کا آغاز کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ ماہن کی سنائی گئی ساری کہانی جھوٹ تھی۔ انہیں اس بنگلے میں کہیں لڑائی جھگڑے کے شواہد نہیں ملے۔ وہاں آتش دان کے قریب رکھی کوئلوں کی بالٹی بھی اتنی مضبوط نہیں تھی جس سے ٹکرا کر کسی کی موت واقع ہو سکتی ہو۔

اس کے علاوہ پولیس نے دیکھا کہ جائے وقوعہ قسائی کی دکان کا منظر پیش کر رہی تھی۔ پولیس نے معاملے کی مزید تحقیق کے لیے خون کے نمونوں کا جائزہ لینے کے لیے ماہرین کو طلب کیا۔

جائے وقوعہ پر پہنچنے والی طبی ٹیم کے سربراہ برطانیہ کے معروف ماہرِ امراضِ خون سر برنرڈ اسپلبری تھے۔ انہوں نے وہاں پہنچ کر جب پولیس افسران کو شواہد جمع کرنے کا کہا تو ایک اہل کار نے آستینیں چڑھا کر فرش پر بکھرے انسانی گوشت کے ٹکڑے اٹھانا شروع کردیے۔

ڈاکٹر اسپلبری نے جب یہ دیکھا کہ پولیس والے اس بے احتیاطی سے شواہد جمع کررہے ہیں جیسے ’ ساحل سے سیپیاں چنی جاتی ہیں‘ تو انہیں بہت حیرت ہوئی۔

انہوں نے پولیس اہل کاروں سے پوچھا کہ کیا ان کے پاس ربر کے دستانے نہیں ہیں جس پر پولیس نے انہیں جواب دیا کہ وہ تو ایسی کوئی چیز استعمال نہیں کرتے۔ اس بات نے ڈاکٹر اسپلبری کو حیرت اور صدمے سے دو چار کر دیا کہ اس طرح شواہد جمع کرنے سے وہ کس قدر مسخ ہو سکتے ہیں جس کے نتیجے میں اصل مجرم قانون کی گرفت سے نکل سکتا ہے۔

اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ہی ڈاکٹر اسپلبری نے قتل کی تفتیش کاروں کے لیے ایک پورا ’مرڈر بیگ‘ تیار کیا۔ اس بیگ میں ربر کے دستانے، محدب عدسہ، پیمائش کا فیتہ، قینچی، چمٹی، ہر نمونے کو الگ رکھنے والے بیگز، اور دیگر اوزار شامل تھے۔

اس کیس کے بعد سے پولیس کے اہل کاروں پر لازم قرار پایا کہ وہ جب بھی کسی قتل کے مقدمے کی تفتیش کے لیے جائے وقوعہ پر جائیں گے تو یہ سب اوزار ساتھ لے کر جائیں گے شواہد جمع کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر بھی اختیار کریں گے۔

کائے کے قتل کی تحقیقات میں جائے وقوعہ پر پولیس کے تفتیش کاروں نے جس بے پروائی سے شواہد اکٹھے کیے تھے اس کی وجہ سے اس کا قاتل ماہن قانون کی پکڑ سے نکلنے میں کامیاب تو نہیں ہو سکا اور کچھ ماہ مقدمہ چلنے کے بعد اسے پھانسی ہو گئی۔

اس کے ساتھ ہی پولیس کے طریقۂ تفتیش میں کچھ ایسی احتیاطی تدابیر اور طریقے بھی شامل ہو گئے جس کی وجہ سے شواہد آلودہ یا مسخ ہونے سے بچانا ممکن ہوا اور 100 سال بعد آج بھی یہ طریقہ رائج ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG