رسائی کے لنکس

حافظ نعیم کا انتخاب: کیا نئے امیر جماعتِ اسلامی کو مین اسٹریم کی پارٹی بنا سکیں گے؟


حافظ نعیم الرحمن جماعت اسلامی کے چھٹے امیر منتخب ہوئے ہیں۔
حافظ نعیم الرحمن جماعت اسلامی کے چھٹے امیر منتخب ہوئے ہیں۔

  • ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی اور پرانی ٹیم کو ساتھ لے کر چلنا حافظ نعیم کے لیے ایک چیلنج ہو گا۔
  • حافظ نعیم ملکی سیاست میں جماعتِ اسلامی کے ایک جارحانہ رہنما کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں: تجزیہ کار سجاد میر
  • منور حسن کے بعد جماعتِ اسلامی کی قیادت حافظ نعیم الرحمن کی صورت میں دوبارہ کراچی کے پاس آئی ہے۔

حافظ نعیم الرحمن کے بطور امیر جماعتِ اسلامی انتخاب کا معاملہ پاکستان کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ ماہرین اس انتخاب کو مذہبی سیاسی قوت کے اندازِ سیاست میں بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں۔

سیاسی مبصرین کے ساتھ ساتھ جماعتِ اسلامی کے اندرونی حلقوں کا بھی یہی خیال ہے کہ مرکزی امارت کے لیے حافظ نعیم الرحمن کا انتخاب جماعتِ اسلامی کے ارکان کی اس خواہش کا عکاس معلوم ہوتا ہے کہ اس کی قیادت کو بدلتی سیاست کے عملی تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔

اگرچہ جماعتِ اسلامی انتخابات کے دوران ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرنے میں اتنی کامیاب نہیں ہو سکی۔ لیکن سیاسی مبصرین کے لیے جماعتِ اسلامی کے امیر کے انتخاب کا معاملہ ہمیشہ دل چسپی کی وجہ بنتا ہے جس کی وجہ اس پارٹی کا سیاسی نظریہ اور اسٹریٹ پاور ہے۔

البتہ حافظ نعیم الرحمن کے انتخاب کو سوشل میڈیا اور عوامی سطح پر جس بڑے پیمانے پر توجہ حاصل ہوئی ہے۔ مبصرین کے نزدیک پاکستان کے حالیہ انتخابات اور اس کے بعد ہونے والی نئی سیاسی صف بندی اس کی بنیادی وجہ ہے۔

انتخاب کیسے ہوا؟

جماعتِ اسلامی کے ارکان میں سے کوئی بھی خود کو بطور قیادت کے امیدوار کے طور پر پیش نہیں کرتا اور نہ ہی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی طلب کیے جاتے ہیں۔

امیر کے انتخاب کے لیے جماعت اسلامی میں فیصلہ سازی کرنے والی مرکزی باڈی یعنی مجلسِ شوریٰ تین نام تجویر کرتی ہے جنھیں رائے کے لیے جماعت کے ارکان کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ جب کہ اراکین چاہیں تو ان تین ناموں کے علاوہ بھی کسی کے لیے ووٹ دے سکتے ہیں۔

اپنے دستور کے مطابق جماعت کی مجلسِ شوریٰ نے موجودہ مرکزی امیر سراج الحق اورمرکزی نائب امیر لیاقت بلوچ کے ساتھ ساتھ کراچی کے امیر رہنے والے حافظ نعیم الرحمن کا نام بھی جماعت کی مرکزی امارت کے لیے تجویز کیا تھا۔

جماعتِ اسلامی میں ووٹ دینے کے اہل اراکین کی تعداد 45 ہزار کے لگ بھگ ہے جن میں چھ ہزار سے زائد خواتین اراکین بھی شامل ہیں۔

اس تنظیمی الیکشن میں جماعتِ اسلامی کے 80 فی صد ارکان نے اپنا ووٹ دیا۔ جماعتِ اسلامی میں طریقہ انتخاب کے مطابق منتخب ہونے والے امیر کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد بھی نہیں بتائی جاتی۔ تاہم پارٹی کے جاری کردہ نتائج کے مطابق حافظ نعیم کا انتخاب کثرتِ رائے سے کیا گیا۔

’سب سے پرانی‘ جماعت کے نئے امیر

جماعت اسلامی کی ویب سائٹ کے مطابق وہ ’ملک کی سب سے بڑی اور پرانی اسلامی تحریک‘ ہے۔ یہ قیامِ پاکستان سے قبل 26 اگست 1941 میں وجود میں آئی تھی۔

جماعت اسلامی کے قیام سے لے کر اب تک چھ امیر منتخب ہوئے ہیں جن میں اس کے بانی سید ابو الاعلیٰ مودودی، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، منورحسن، سراج الحق اور اب حافظ نعیم الرحمن شامل ہیں۔

جماعتِ اسلامی کی جانب سے نو منتخب امیر کے جاری کردہ تعارف کے مطابق حافظ نعیم الرحمٰن 1972 میں حیدرآباد، سندھ کے ایک متوسط طبقے کے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین ہندوستان کے شہر علی گڑھ سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔

جماعت اسلامی کے بانی اور پہلے امیر سید ابو الاعلی مودودی بیسویں صدی میں اسلام کی سیاسی تعبیر پیش کرنے والے اہم ترین اسکالرز میں شمار ہوتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے بانی اور پہلے امیر سید ابو الاعلی مودودی بیسویں صدی میں اسلام کی سیاسی تعبیر پیش کرنے والے اہم ترین اسکالرز میں شمار ہوتے ہیں۔

نعیم الرحمن نے ابتدائی تعلیم حیدرآباد سے حاصل کی اور وہیں قرآن بھی حفظ کیا۔ بعدازاں کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی سے بی ای سول انجینئرنگ کیا اور کراچی یونیورسٹی سے اسلامی تاریخ میں ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کی۔

جماعتِ اسلامی میں شمولیت سے قبل وہ پارٹی کے اسٹوڈنٹ ونگ اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن اور 1998 میں اس کے مرکزی ناظمِ اعلیٰ بھی رہے۔ جماعتِ اسلامی میں شامل ہونے کے بعد 2013 میں وہ کراچی کے امیر منتخب ہوئے۔

انہوں نے کراچی میں "حق دو کراچی کو تحریک" کے نام سے مہم کا آغاز کیا اور جنوری 2022 میں سندھ اسمبلی کے باہر 29 روز تک جاری رہنے والا دھرنا دیا جس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے بلدیاتی اداروں کے اختیارات واپس کرنے کے لیے معاہدے پر دستخط کیے۔

اس معاہدے کے نتیجے میں 15جنوری 2023 کو کراچی کے بلدیاتی انتخابات اور آٹھ فروری 2024 کے عام انتخابات میں حافظ نعیم الرحمٰن نے فعال سیاسی کردار ادا کیا اور انہیں مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پر توجہ حاصل ہوئی ہے۔

جماعت اسلامی میں کون کب تک امیر کے منصب پر فائز رہا؟

سید ابو الاعلیٰ مودودی (بانی امیر)1941-1972
میاں طفیل محمد 1972-1987
قاضی حسین احمد 1987-2009
سید منور حسن 2009-2014
سراج الحق2014-2024

خاص طور پر آٹھ فروری کے انتخابات میں سندھ اسمبلی کی ایک نشست پر الیکشن کمیشن کی جانب سے کامیابی کے اعلان کے باجود جب انہوں نے انتخابی بے ضابطگیوں کی بنیاد پر یہ نشست قبول کرنے سے انکار کردیا تو اسے ایک غیر روایتی اقدام کے طور پر دیکھا گیا۔

حافظ نعیم ماضی میں امیر رہنے والوں سے کتنے مختلف؟

کراچی میں مقیم پاکستان کی سیاسی تاریخ پر کتابوں کے مصنف اور 'انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ' کے سربراہ ڈاکٹر سید جعفر احمد کہتے ہیں کہ مولانا مودودی کے نظریات سے اختلافات سے قطعِ نظر وہ ایک فعال سیاسی رہنما کے طور پر اس وقت کے ملکی منظرنامے میں سامنے آئے تھے۔ انہوں ںے ایک عالم اور دانشور کی حیثیت سے پاکستان میں اسلامی ریاست کے قیام کا ماڈل بھی پیش کیا تھا اور اس کے لیے کئی کتب اور مقالے لکھے تھے۔

میاں طفیل 1970 کی دہائی میں وزیر اعظم بھٹو کے دور حکومت میں اپوزیشن کے نمایاں قائدین میں شامل تھے۔ مارشل لا کے بعد وہ جنرل ضیا الحق کے بھی قریب رہے۔
میاں طفیل 1970 کی دہائی میں وزیر اعظم بھٹو کے دور حکومت میں اپوزیشن کے نمایاں قائدین میں شامل تھے۔ مارشل لا کے بعد وہ جنرل ضیا الحق کے بھی قریب رہے۔

ڈاکٹر جعفر احمد کے بقول مولانا مودودی کے بعد جماعتِ اسلامی کے مرکزی امراء بننے والوں میں وہ علمی قابلیت دیکھنے میں نہیں آتی۔

جماعتِ اسلامی کے تنظیمی معاملات اور طرزِ سیاست پر نظر رکھنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ کار سجاد میر کہتے ہیں کہ حافظ نعیم ملکی سیاست میں جماعتِ اسلامی کے ایک جارحانہ رہنما کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں جو دعوت کے ساتھ ساتھ سیاسی پیغام بھی پُر زور طریقے سے پیش کریں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سجاد میر کا کہنا تھا کہ ترکیہ، تیونس سمیت دنیا کے وہ ممالک جہاں اسلامی تحریکیں چل رہی ہیں، وہاں یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ تبلیغ کو سیاست سے علیحدہ نہ کیا جائے۔

کراچی میں مقیم صحافی فیض اللہ خان کا کہنا ہے کہ حافظ نعیم سے جماعت کے نوجوان طبقے کو کافی امیدیں وابستہ ہے جو بدلتے ہوئے دور کے مطابق جماعت میں تبدیلی چاہتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حافظ نعیم منصورہ میں مرکزی تنظیم کی کس ٹیم کے ساتھ جماعت کی سربراہی کریں گے؟ اس سے جماعت کی سیاست کے مستقبل کا اندازہ لگایا جاسکے گا۔

ان کے بقول؛"البتہ یہ بات تو طے ہے کہ حافظ نعیم جماعت میں ایک اعتدال پسند سربراہ کے طور پر سامنے آئیں گے جو جماعت کے اندر نئے اور پرانے خیالات کے کارکنوں کے درمیان پل کا کردار بھی ادا کریں گے۔"

تاہم سجاد میر کا کہنا ہے کہ نئی اور پرانی ٹیم کو ساتھ لے کر چلنا بھی حافظ نعیم کے لیے ایک چیلنج ہو گا۔

مقامی ایشوز کی سیاست

منور حسن کے بعد جماعتِ اسلامی کی قیادت حافظ نعیم الرحمن کی صورت میں دوبارہ کراچی کے پاس آئی ہے۔

سجاد میر اسے جماعتِ اسلامی کی سیاست کے لیے ایک "غیر معمولی" تبدیلی قرار دے رہے ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ حافظ نعیم کو جماعتِ اسلامی کراچی کی تنظیم، منور حسن اور پروفیسر غفور جیسے بڑے سیاسی رہنماؤں کی میراث کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

بعض تجزیہ کار اور جماعتِ اسلامی کے کچھ حلقے حافظ نعیم یہ پر تنقید کررہے ہیں کہ ان کی مرکزی یا صوبائی سیاست کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ملک گیر سیاست کرنے میں مشکلات ہوں گی۔

قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کو پاپولر سیاسی قوت میں تبدیل کرنے کی پالیسی اختیار کی۔ ان کے دور امارت میں جماعت اسلامی نے اسٹریٹ پاور کے طور پر اپنی نمایاں شناخت بنائی۔
قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کو پاپولر سیاسی قوت میں تبدیل کرنے کی پالیسی اختیار کی۔ ان کے دور امارت میں جماعت اسلامی نے اسٹریٹ پاور کے طور پر اپنی نمایاں شناخت بنائی۔

سید جعفر احمد کا کہنا ہے کہ جماعتِ اسلامی کے لیے شروع ہی سے کراچی کافی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہاں سے تین بار شہر کی میئر شپ جماعتِ اسلامی کے پاس رہی۔

ان کا کہنا ہے کہ کراچی اور حیدر آباد جیسے شہری مراکز کے مقابلے میں جماعتِ اسلامی کے لیے پنجاب میں جاگیردرانہ ساخت اور دیہی سندھ میں بڑے زمینداروں کی طاقت کو توڑنا کافی مشکل تھا۔

ان کے بقول؛ "کراچی اور حیدر آباد جیسے مڈل اور لوئر کلاس کے شہروں میں جماعتِ اسلامی کے لیے گراس روٹ پارٹی بننا آسان تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پروفیسر غفور احمد جیسے جماعتِ اسلامی کے مرکزی قائدین کراچی میں 1950 کے بلدیاتی انتخابات میں سامنے آئے اور بعد میں ملکی سطح کے رہنما بنے۔‘‘

خیبرپختونخوا کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر سید جعفر احمد نے کہا کہ جماعتِ اسلامی کا اثر و نفوس دیر کے اضلاع تک ہی محدود رہا جس کی وجہ جماعت کی تنظیم سے زیادہ مقامی صاحبزادہ خاندان کا ذاتی اثر اور احترام تھا۔

پاکستان کی مذہبی جماعتوں کی سیاست پر تحقیق کرنے والے پشاور کے صحافی لحاظ علی کہتے ہیں کراچی اور گوادر میں عوامی مسائل کو اُجاگر کرنے کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ حافظ نعیم کی توجہ بھی عوامی مسائل پر ہی رہے گی۔

لیکن فیض اللہ خان کہتے ہیں کہ جماعتِ اسلامی کے اندر روایتی خیالات رکھنے والے افراد کشمیر اور افغانستان کے بجائے صرف کراچی کے بنیادی مسائل پر توجہ مرکز رکھنے پر تشویش بھی ظاہر کرتے رہے ہیں۔

شخصیت یا نظریات؟

حافظ نعیم الرحمن کے مرکزی امیر بننے کے بعد تجزیہ کاروں اور جماعت کے اندرونی حلقوں میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ کیا اب جماعت اسلامی کی تنظیم پر نظریات کے مقابلے میں شخصیت حاوی ہو رہی ہے۔

بعض مبصرین کے مطابق 2022 میں ہونے والے کراچی کے بلدیاتی انتخاب میں جس طرح حافظ نعیم الرحمن کے نام اور تصویر پر ووٹ مانگے گئے یہ جماعتِ اسلامی کی روایتی سیاست سے مختلف انداز تھا۔ کراچی میں 2016 سے قبل متحدہ قومی موومنٹ بھی تقسیم کا شکار ہونے سے پہلے تک پارٹی بانی الطاف حسین کے نام اور تصویر پر الیکشن لڑتی تھی۔

سید منور حسن کراچی سے تعلق رکھنے والے پہلے امیر جماعت تھے۔ انھوں نے کئی سیاسی احتجاجی تحریکوں میں نمایاں کردار ادا کیا اور دور امارت میں اسٹیبلشمنٹ سے متعلق اپنے دو ٹوک مؤقف اور مذہبی عسکری تنظیموں سے متعلق بیانات کی وجہ سے تنازعات کا سامنا کیا۔
سید منور حسن کراچی سے تعلق رکھنے والے پہلے امیر جماعت تھے۔ انھوں نے کئی سیاسی احتجاجی تحریکوں میں نمایاں کردار ادا کیا اور دور امارت میں اسٹیبلشمنٹ سے متعلق اپنے دو ٹوک مؤقف اور مذہبی عسکری تنظیموں سے متعلق بیانات کی وجہ سے تنازعات کا سامنا کیا۔

ماضی میں بننے والے امراء امارت سنبھالنے سے قبل پارٹی کے جنرل سیکریٹری یا نائب امیر کی ذمے داریاں ادا کرچکے ہوتے تھے۔ تاہم جماعت کے حالیہ انتخابات میں یہ دیکھنے میں آیا کہ پارٹی کے ارکان نے مرکزی عہدوں پر فائز رہنے والے سینئر رہنمائوں سراج الحق اور لیاقت بلوچ کے مقابلے میں کراچی کے امیر رہنے والے حافظ نعیم الرحمن کو ترجیح دی۔

صحافی لحاظ علی کا کہنا ہے کہ ملک میں جاری پاپولسٹ سیاست کی لہر سے جماعتِ اسلامی بھی شدید متاثر ہوئی ہے جس کی وجہ سے اس کے ارکان نے جماعت کے اندر ہی پاپولر رہنما حافظ نعیم الرحمن کا انتخاب کیا۔

وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سنیارٹی کے لحاظ سے جونئیر رہنما حافظ نعیم الرحمن کو مرکزی امارت کے لیے تجویز کرنا بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس حوالے سے جماعتِ اسلامی کی شوریٰ بھی ملک میں مقبولیت کی لہر کے دباؤ کا شکار رہی ہے۔

ان کے بقول؛ "جماعتِ اسلامی میں بھی سوچ پائی جا رہی تھی کہ پاکستان تحریکِ انصاف جیسی پاپولسٹ جماعتوں کی طرح ان کے سربراہ بھی کسی کرشماتی شخصیت کے حامل ہوں تو جماعت کی مسلسل زوال پذیری کو روکا جا سکتا ہے۔‘‘

قاضی حسین احمد سے موازنہ

لحاظ علی کے مطابق جماعتِ اسلامی میں نوجوان اراکین اور خاص طور پر اسلامی جمعیت طلبہ سے فارغ التحصیل کارکنوں نے برزگ قیادت کے مقابلے میں حافظ نعیم کی شکل میں نوجوان رہنما کے انتخاب میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

بعض حلقے حافظ نعیم کے انتخاب کو سابق مرکزی امیر قاضی حسین احمد کی مقبول سیاست سے جوڑ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کی امارت کے دوران ہی جماعت میں شخصیت تنظیم کے نظریات پر حاوی ہونا شروع ہو گئی تھی۔

البتہ سید جعفر احمد اس بات سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے مرکزی امیر بننے سے قبل کافی عرصے تک جماعت کے مرکزی سیکریٹری جنرل رہے تھے جس کی وجہ سے وہ پاکستان کی سطح پر ایک جانی پہنچانی سیاسی شخصیت تھے۔

ان کے بقول، "اس کے ساتھ ساتھ اس وقت افغانستان میں جاری نام نہاد جہاد میں جماعتِ اسلامی کے کردار کے سبب بھی قاضی حسین احمد ایک نامور شخصیت بن کر ابھرے۔"

پی ٹی آئی اور بیانیے کا چیلنج

تجزیہ کاروں اور جماعتِ اسلامی سے وابستہ ارکان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی بالعموم ملک بھر اور بالخصوص خیبر پختونخوا اور کراچی میں مقبولیت اور اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے نے جماعتِ اسلامی کو اس کے کیڈر اور روایتی ہمدردوں سے کافی حد تک محروم کیا ہے۔

چند برس قبل تک خیبرپختونخوا کا دیر کا خطہ کئی دہائیوں تک جماعتِ اسلامی کا گڑھ رہا ہے مگر پاکستان تحریکِ انصاف کی مقبولیت کے سبب جماعتِ اسلامی اس ضلع سے پارلیمانی طورپر مکمل طورپر ختم ہو کر رہ گئی۔

سید جعفر احمد کہتے ہیں کہ جماعتِ اسلامی کے نئے امیر کے لئے عمران خان کی 'کرشماتی شخصیت کے اردگرد گھومتی" پی ٹی آئی کی سیاست کا مقابلہ کرنا ایک مشکل چیلنج ہے۔

بعض ماہرین کے مطابق سراج الحق کے دورِ امارت میں جماعتِ اسلامی پرو یا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بنیادوں پر ہونے والی سیاسی صف بندیوں میں کسی جانب کھڑی نہیں ہوئی۔ جماعت کے حامی اسے ایشو بیسڈ سیاست قرار دیتے ہیں۔
بعض ماہرین کے مطابق سراج الحق کے دورِ امارت میں جماعتِ اسلامی پرو یا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بنیادوں پر ہونے والی سیاسی صف بندیوں میں کسی جانب کھڑی نہیں ہوئی۔ جماعت کے حامی اسے ایشو بیسڈ سیاست قرار دیتے ہیں۔

بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک جماعت اسلامی ملکی سیاست میں مرکزی سطح پر دو ٹوک بیانیہ اختیار نہیں کر پائی ہے اور اس کے اندر ہی کئی مختلف سطح پر کئی بیانیے سامنے آئے ہیں۔

لحاظ علی کے بقول "جہاں ایک جانب سراج الحق ملک گیر سطح پر سینٹرسٹ بیانیے کے تحت سیاست کرتے رہے، وہیں کراچی میں حافظ نعیم الرحمن نے شہری مسائل کی سیاست کے ذریعے پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے خلاف ایک جارحانہ فرنٹ کھول رکھا تھا۔"

ان کا کہنا ہے کہ دوسری جانب خیبرپختونخوا کے رہنما سینیٹرمشتاق احمد خان اور بلوچستان کے رہنما مولانا ہدایت الرحمٰن اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے اور جبری گمشدگیوں اور فوجی آپریشنز جیسے مسائل پر کھل کر بات کرنے سے نوجوانوں میں کافی مقبول ہوئے۔

تاہم فیض اللہ خان کا کہناہے کہ حافظ نعیم نے شہر کے مسائل کی سیاست جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے ہی کی جب کہ سینیٹر مشتاق احمد خان یا مولانا ہدایت الرحمٰن نے اپنی سرگرمیاں انفرادی طورپر یا ’حق دو تحریک‘ کے پلیٹ فارم سے کی تھیں۔

سیاسی حکمتِ عملی کیا ہو گی؟

بعض تجزیہ کار اور جماعتِ اسلامی کے اندرونی حلقوں کا خیال ہے کہ حافظ نعیم الرحمن پی ٹی آئی کی مقبولیت کے عوامل کو دیکھے ہوئے جماعت کے تنظیمی ڈھانچے میں متعدد بنیادی تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔

ان تبدیلیوں میں پارٹی سرگرمیوں میں خواتین کی نمایاں شرکت کے ساتھ ساتھ پارٹی کے پروگرام اور بیانیے کو پھیلانے کے لیے روایتی میڈیا کے بجائے سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال شامل ہے۔

صحافی لحاظ علی کا خیال ہے کہ عمران خان نے جس طرح شوکت خانم کینسر اسپتال جیسے فلاحی منصوبے کو اپنی جماعت کی مقبولیت کے لیے استعمال کیا۔ اسی طرح حافظ نعیم جماعت اسلامی سے وابستہ فلاحی ادارے الخدمت فاؤنڈیشن کو قومی سطح پر جماعت کی مقبولیت کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

فیض اللہ خان کا کہنا ہے کہ کراچی شہر میں جماعت کے پلیٹ فارم سے سیاسی سرگرمیاں اور الخدمت فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے فلاحی سرگرمیوں کو ساتھ لے کر چلے جس کا جماعت کو شہر کی سطح پر کافی فائدہ ہوا۔

ان کے بقول "کراچی میں حافظ نعیم نے جماعت کے پلیٹ فارم سے جس طرح خواتین کو منظم رکھا اور وہ جماعتی سرگرمیوں اور مظاہروں میں سرگرم رہیں، اس طرز پر خواتین کو خیبرپختونخوا میں فعال کرنا حافظ نعیم کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا۔"

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حافظ نعیم نے انتخابی دھاندلی کے بارے میں دو ٹوک مؤقف اختیار کیا تھا اور اپنی جیتی ہوئی نشست بھی واپس کردی تھی۔

اس لیے اب یہ سوال بھی اہمیت اختیار کر گئے ہیں کہ جماعت کا مرکزی امیر منتخب ہونے کے بعد کیا حافظ نعیم اپنا یہ دو ٹوک اور جارحانہ انداز برقرار رکھیں گے؟ اور ملکی سیات میں ابھرتی تقسیم میں لکیر کی کس جانب کھڑے ہوں؟

  • 16x9 Image

    ضیاء الرحمٰن خان

    ضیاء الرحمٰن کراچی میں مقیم ایک انویسٹیگیٹو صحافی اور محقق ہیں جو پاکستان کے سیکیورٹی معاملات، سیاست، مذہب اور انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG