رسائی کے لنکس

پاکستان میں جنسی تعلیم


جو کام ملک کے بڑے شہروں میں نہیں ہو رہا، وہ صوبہٴسندھ کے ایک گاوٴں میں پچھلے ڈیڑھ سال سے شروع ہو چکا ہے

بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے ادارے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اگر بچوں کو ان کی عمر کے حساب سے ان کے حقوق کے بارے میں آگہی دی جائے، تو ان پر ہونے والے مختلف قسم کے ظلم و تشدد کو کم کیا جا سکتا ہے۔

کراچی کے سول اسپتال میں بچوں کے شعبے اور بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی این جی او، ’کونپل‘ کی سربراہ، پروفیسر ڈاکٹر عائشہ مہناز کا کہنا ہے کہ بچوں کو ان کی عمر کے اعتبار سے ان کے حقوق کے بارے میں بتانا ضروری ہے، تاکہ ان پر ہونے والے تشدد کو روکا جا سکے اور ان پر ہونے والے مظالم کی فہرست میں جنسی تشدد بھی شامل ہے۔ چنانچہ بچوں کو ان کی عمر کے اعتبار سے بتدریج جنسی تعلیم بھی دی جانی چاہئے، تاکہ وہ اپنا دفاع کر سکیں، جس میں ایسی جگہ نہ جانا جہاں کوئی ان کے ساتھ جنسی تشدد کر سکتا ہو، خطرے کی صورت میں شور مچانا، وہاں سے بھاگ جانا اور اپنے والدین کو فوری طور پر اس بارے میں بتانا شامل ہے۔

جو کام ملک کے بڑے شہروں میں نہیں ہو رہا وہ صوبہٴسندھ کے گاوٴں میں پچھلے ڈیڑھ سال سے شروع ہو چکا ہے۔

’ویلج شادآباد آرگنائزیشن‘ (وی ایس او) نامی ادارے کے سربراہ، اکبر لاشاری نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ان کی این جی او پچھلے 20 سال سے بچوں کے حقوق، خاص طور پر تعلیم کے میدان میں کام کر رہی ہے اور ان کے 33 میں سے آٹھ اسکولوں میں پچھلے ڈیڑھ سال سے بچوں کو جنسی تعلیم بھی دی جا رہی ہے۔

اکبر لاشاری نے بتایا کہ جوہی اور دادو میں ان کے آٹھ اسکولوں میں سے چار میں صرف بچیاں اور چار میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں پڑھتے ہیں۔ اور، ان اسکولوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کو الگ الگ بڑی احتیاط سے تربیت یافتہ استانیاں اُنھیں جنسی تعلیم دیتی ہیں اور کسی کی بھی جانب سے نامناسب سلوک کی صورت میں، اپنے دفاع کے بارے میں آگاہ کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ ان بچوں کو اپنے بچاوٴ کے لئے کیا کرنا چاہئے۔ ساتھ ہی، بچوں کو بلوغت اور کم عمری میں شادی کے بارے میں بھی بتایا جاتا ہے۔

اکبر لاشاری نے بتایا کہ ہفتے میں دو مرتبہ باقی مضامین کے ساتھ ساتھ بچوں کو دی جانے والی جنسی تعلیم کے بارے میں بچوں کے والدین کو مکمل طور پر اعتماد میں لیا جاتا ہے اور کمیونٹی میٹنگز بھی کی جاتی ہیں اور اس ہی وجہ سے ان کو اس سلسلے میں کبھی کسی قسم کی مزاہمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

دادو کی سیاسی اور سماجی شخصیت عرض محمد بوزدار نے ’وائس ااف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا اور ان کے حلقہٴاحباب کا خیال ہے کہ بچوں کو جنسی تعلیم دینا ایک اچھا عمل ہے، اور وہ اس کی 100 فیصد حمایت کرتے ہیں۔ بس، اس میں مذہبی اور ثقافتی اقدار کو مدنظر رکھا جائے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر معاشرہ بچوں کے حقوق کا خیال کرے اور ان کو جنسی تعلیم دے کر ان کو ان کے حقوق سے آگاہ کرے تو بچوں اور خواتین پر ہونے والے بڑھتے ہوئے جنسی تشدد میں کمی آسکتی ہے۔
XS
SM
MD
LG