رسائی کے لنکس

یوکرین خانہ جنگی کے دہانے پر ہے: پوٹن


ولادیمر پوٹن نے الزام عائد کیا کہ ملک کے مشرقی شہروں میں 10 عمارتوں پر قابض روس کے حامی مظاہرین کے خلاف یوکرین نے ’’غیر آئینی‘‘ راستہ اختیار کیا ہے۔

روس کے صدر ولادیمر پوٹن نے کہا ہے کہ یوکرین میں بڑھتے ہوئے بحران نے ملک کو ’خانہ جنگی‘ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔

کریملن کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق صدر نے یہ بیان جرمنی کی چانسلر آنگیلا مرخیل سے ٹیلی فون پر رابطے کے دوران دیا۔

ولادیمر پوٹن نے الزام عائد کیا کہ ملک کے مشرقی شہروں میں 10 عمارتوں پر قابض روس کے حامی مظاہرین کے خلاف یوکرین نے ’’غیر آئینی‘‘ راستہ اختیار کیا ہے۔

کریملن کے بیان کے مطابق ولادیمر پوٹن اور جرمن چانسلر نے اس اُمید کا اظہار کیا ہے کہ جمعرات کو جنیوا میں یورپی یونین، روس، یوکرین اور امریکہ کے اجلاس میں اس مسئلے کے پر امن حل کی تلاش میں پیش رفت ہو سکے گی۔

اُدھر یوکرین نے مشرقی علاقے میں "انسداد دہشت گردی آپریشن" شروع کر دیا ہے اور فضا سے اپنے فوجی بھی علاقے میں اتارے لیکن انھیں مقامی آبادی کی طرف سے مزاحمت کے بعد اڈے پر واپس بلا لیا گیا۔

کراماتورسک یوکرین کے ان دس مشرقی علاقوں میں سے ایک ہے جہاں روسی بولنے والوں نے مظاہرے شروع کر رکھے ہیں۔ حکام اس کارروائی کے ذریعے دس روز قبل شروع ہونے والی بدامنی پر قابو پانا چاہتے تھے۔

ادھر سکیورٹی سروس کے اعلان کے مطابق ایسا ہی ایک آپریشن سلویانسک میں بھی جاری ہے جہاں روس کے حامیوں نے اپنے ریفرنڈم کے مطالبے کو لے کر سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔

اتوار کو یوکرین کے عبوری صدر الیگزینڈر ٹرچینوف کی طرف سے علیحدگی پسندوں کے خلاف "بھرپور آپریشن" کے انتباہ کے باوجود سکیورٹی فورسز نے اعتدال سے کام لیا۔ یہاں تک کہ صدر نے بھی اپنے لہجے کو بھی زیادہ جارحانہ نہیں ہونے دیا۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ کیئف اس معاملے کا حل تلاش کرنے کے لیے جمعرات کو جنیوا میں ہونے والی چار فریقی کانفرنس سے پہلے تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

اس کانفرنس میں یوکرین اور روس کے علاوہ امریکہ اور یورپی یونین کے نمائندے بھی شامل ہیں۔

ماسکو نے کیئف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ علیحدگی پسندوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کرے۔

اس تنازع نے مغرب اور کیئف میں ان خدشات کو جنم دیا ہے کہ روس مشرقی یوکرین میں روسی بولنے والوں کے "تحفظ" کے لیے فوجی مداخلت کر سکتا ہے۔

ان خدشات کو اس باعث بھی تقویت مل رہی ہے کہ کئی ماہ کے مظاہروں کے بعد صدر وکٹر یانوکووچ کی برطرفی کے بعد ہونے والے ایک ریفرنڈم میں یوکرین کے جزیرہ نما کرائمیا نے روس سے الحاق کے لیے ووٹ دے اور گزشہ ماہ روس نے اسے اپنا حصہ تسلیم کر لیا تھا۔

امریکہ نے منگل کو کہا کہ یوکرین کی طرف سے روس کے حامی مسلح افراد کے خلاف کارروائی ملک میں امن و امان کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہے۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جی کارنی کا کہنا تھا کہ " یوکرین کی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ امن و امان کو برقرار رکھے اور مشرقی یوکرین میں اشتعال انگیزی سے پیدا ہونے والی صورتحال پر حکومت کو ردعمل ظاہر کرنا تھا۔"

ان کے بقول امریکہ روس کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کی "سنجیدگی سے غور" کر رہا ہے لیکن وہ یوکرین کو مہلک ہتھیار کی فراہمی سے متعلق نہیں سوچ رہا۔

دریں اثناء اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون سے منسوب ایک بیان میں کہا گیا کہ ابھی ایسا وقت نہیں آیا کہ اقوام متحدہ کا کوئی امن فوجی یوکرین میں بھیجا جائے۔

میکسیکو کے دورے کے موقع پر انھوں نے اخبار ریفورما کو بتایا کہ"اس موقع پر یہ قابل عمل نہیں کہ وہاں فوجی بھیجے جائیں۔"

بان کی مون کا کہنا تھا کہ امن فوجی یوکرین میں بھیجنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رضا مندی ضروری ہے اور روس اس کا مستقل رکن ہے۔

" جب تک ہمارے پاس سلامتی کونسل کی طرح سے واضح اختیار نہیں مل جاتا میں کوئی اقدام نہیں کر سکتا۔"

قبل ازیں کریملن کا کہنا تھا کہ روس کے صدر ولادیمر پوٹن نے مسٹر بان کو بتایا کہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری مشرقی یوکرین میں یوکرین کی طرف سے طاقت کے استعمال کی مذمت کرے۔
XS
SM
MD
LG