رسائی کے لنکس

افغان صدراتی انتخابات: برٹش افغانیوں کی امیدیں اور خواہشات


برطانوی افغانیوں کی مشترکہ رائے یہ ہے کہ دہشت اور خوف کی سرزمین کو اب امن کی ضرورت ہے، جس کے لیے ایک مضبوط جمہوری حکومت کا ہونا بہت ضروری ہے

افغان باشندوں نےافغانستان کے پرامن مستقبل کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کر دیا ہے اور خوف دہشت کی فضا میں بھی بڑی بہادری اور جذبے کے ساتھ آگے بڑھ کر ایک جمہوری حکومت کے قیام کے حق میں اپنا فیصلہ سنا دیا ہے، وہیں دیارغیر میں بسنے والے لاکھوں افغان تارکین وطن بھی اسی جوش وجذبے کے ساتھ اپنے پسندیدہ صدارتی امیدوارکی کامیابی کے لیے دعائیں کرتے نظر آئے۔
برطانیہ میں برٹش افغان بہت بڑی تعداد میں آباد ہیں۔

سال 2009 کی مردم شماری کے اعداد وشمار کے مطابق برطانیہ میں افغان تارکین وطن کی کل تعداد لگ بھگ 56 ہزار ہے۔ جبکہ، داراحکومت لندن میں تقریباً 70 فیصد برطانوی افغان آباد ہیں۔ ابتدا میں، افغانستان سے برطانیہ ہجرت کرنے والوں کی بڑی تعداد طلبا، تاجر اور حکومتی عہدیداروں پر مشتمل تھی۔ لیکن،1980ء کے بعد بہت بڑی تعداد میں افغان مہاجرین نے برطانیہ میں پناہ حاصل کی ۔
ایسے وقت میں جب تاریخ ساز صدارتی الیکشن کا عمل جاری ہے،دنیا کے بہت سے ملکوں میں بسنے والے افغانی تارکین وطن اور افغان مہاجرین کے دل بھی نئی امید کے ساتھ دھڑک رہے ہیں۔

پسندیدہ صدارتی امیدوار اور انتخابات کے حوالے سے 'وی او اے' سے اظہار خیال کرتے ہوئے برطانوی افغانیوں کی مشترکہ رائے یہ تھی کہ دہشت اور خوف کی سرزمین کو اب امن کی ضرورت ہے، جس کے لیے ایک مضبوط جمہوری حکومت کا ہونا بہت ضروری ہے۔
عبدالسلام تقریباً ایک عشرے سے لندن میں مقیم ہیں۔ انھوں نے وی او اے کو بتایا کہ اگرچہ وہ ووٹ نہیں ڈال سکے۔ لیکن، جمہوریت کی پر زورحمایت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں ترقی اور خوشحالی کے قیام کے لیے ایک جمہوری حکومت کا ہونا بہت ضروری ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان کے پسندیدہ صدارتی امیدوار اشرف غنی ہیں۔ چونکہ، بقول اُن کے، وہ ایک معیشت دان ہیں اس لیے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وہ ملک کی معیشت کو بہتر بنائیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اب افغانستان میں سچ مچ امن آجائے تاکہ ہم ہمارے بچے کبھی اپنے وطن جا سکیں۔
محمد شفیق نے کہا کہ اگرچہ وہ صبح سےالیکشن پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھیں انتخابات کے نتائج سے دلچسپی نہیں ہے۔ مگر امید رکھتے ہیں کہ جو بھی صدر بنے وہ ملک کے لیے بہترثابت ہو، ورنہ ہم جیسے لوگ تو چاہے افغانستان میں ہوں یا برطانیہ میں ہمیں روٹی کھانے کے لیے محنت مزدوری کرنی پڑتی ہے۔ جبکہ، کرسی پر بیٹھنے والے سیاستدان اپنے مفاد کے لیے کام کرتے ہیں۔ غریب کے حالات نہیں بدلتے۔ میرا خاندان پاکستان اور افغانستان میں بکھرا ہوا ہے۔ ہماری حالت یتیم و یسیر جیسی ہے۔ اگر ملک میں امن قائم ہوگا توہمیں بھی اپنی کھوئی ہوئی عزت واپس مل جائے گی۔

محمد منصور نے افغانستان میں صدارتی انتخابات کے بارے میں بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس موضوع پر بات بھی کرنا پسند نہیں کرتے۔
ایک اور برٹش افغان نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ انھیں لگتا ہے کہ طالبان ملک کا نظام نہیں چلا سکتے۔

اان کے اہل خانہ بھی ان انتخابات میں ڈر اور خوف کے باوجود ووٹ ڈالنے گئے۔

وہاں کوئی بھی جنگ اور دہشت گردی نہیں چاہتا۔ اس لیے، ہم سب بہت پر امید ہیں کہ نئی حکومت کے آنے سے ملک کے حالات بہتر ہوں گے۔


XS
SM
MD
LG