رسائی کے لنکس

قندوز پر قبضے کے لیے افغان فورسز کی کارروائی


افغانستان کے صدر اشرف غنی نے منگل کو بتایا کہ مزید کمک قندوز اور قریبی بغلان صوبے میں پہنچ گئی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ افغان فورسز کو صوبہ قندوز میں کامیابی ملی ہے۔

افغانستان کے شمالی شہر قندوز سے طالبان کا قبضہ ختم کرانے کے لیے منگل کو افغان فورسز نے آپریشن شروع کر دیا ہے جب کہ امریکی فورسز نے بھی شہر میں فضائی کارروائیاں کیں۔

ملک کے اس اہم شہر پر پیر کو طلوع آفتاب سے قبل طالبان نے تین اطراف سے بڑا حملہ کیا تھا، اور عینی شاہدین کے مطابق شام تک جنگجوؤں نے شہر کے مرکزی حصے میں اپنا پرچم لہرا دیا۔

افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کے مشن کے ترجمان کرنل برائن ٹریبس نے کہا ہے کہ منگل کی صبح کی جانے والی فضائی کارروائیاں ان کی فورسز کو درپیش خطرے کے خاتمے کے لیے کی گئیں۔

اُدھر افغان فورسز نے بھی قندوز سے طالبان کا قبضہ چھڑانے کے لیے زمینی کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے اور افغان وزارت دفاع کے مطابق فوجیوں نے پولیس ہیڈ کوارٹر اور شہر کی جیل کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

طالبان کی طرف سے پیر کو شہر پر حملے کے بعد شدت پسندوں نے شہر کی جیل میں بند لگ بھگ 600 قیدیوں کو فرار کروا دیا جن میں 144 طالبان بھی شامل تھے۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے منگل کو بتایا کہ مزید کمک قندوز اور قریبی بغلان صوبے میں پہنچ گئی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ افغان فورسز کو صوبہ قندوز میں کامیابی ملی ہے اور کچھ سرکاری عمارتوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا گیا ہے۔

افغان صدر کا کہنا تھا کہ طالبان شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں جس سے افغانستان کی فورسز کی کارروائی متاثر ہو رہی ہے۔

صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ فضائی اور زمینی کارروائیوں کے باعث دشمن کا بھاری جانی نقصان ہوا ہے۔

دریں اثناء افغانستان کے وزیر دفاع محمد معصوم ستنکزئی نے صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کی لڑائی میں 17 افغان فوجی ہلاک اور 18 زخمی ہوئے ہیں۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق لڑائی میں تین جنجگو مارے گئے جب کہ 11 زخمی ہوئے۔ شدت پسند اپنے جانی نقصان کو عموماً کم پیش کرتے ہیں۔

طالبان کا کہنا تھا کہ انھوں نے گورنر کے دفتر سمیت اہم صوبائی عمارتوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔

شہر میں موجود طالبان جنگجو
شہر میں موجود طالبان جنگجو

2001ء میں امریکہ کی قیادت میں بین الاقوامی افواج کی افغانستان میں کارروائی کے بعد طالبان کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ اُس وقت کے بعد سے اب تک ملک کے کسی بھی بڑے شہر پر شدت پسندوں کا یہ پہلا قبضہ ہے۔

قندوز شہر کا شمار افغانستان کے بڑے اور خوشحال شہروں میں ہوتا ہے۔ اس کی جغرافیائی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے کیوں کہ یہ پاکستان اور چین کو وسطیٰ ایشیا سے ملانے والے راستے پر واقع ہے۔

انسانی حقوق کی ایک بین الاقوامی تنظیم ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے تمام فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پیر کو رات گئے ایک بیان کے ذریعے قندوز میں کام کرنے والے غیر ملکی امدادی کارکنوں سے کہا تھا کہ وہ بغیر کسی تعطل کے اپنا کام جاری رکھیں اور اُنھیں یقین دہانی کروائی کہ اگر ان تنظیموں کو کسی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے تو اُن کے حل میں مدد کی جائے گی۔

تاہم اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی امدادی تنظیموں نے اپنے عملے کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا ہے۔

اس اہم شہر پر طالبان کے حملے کو افغان حکام اور اقوام متحدہ کی طرف سے قابل مذمت قرار دیا گیا ہے۔

نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پیر کو دیر گئے خطاب کرتے ہوئے افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ بعض حملہ آور دوسرے ملک سے آئے تھے۔

انھوں نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ معلوم دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کا اپنا وعدہ پورا کرے۔

’’ہم خطے کے دیگر فریقین اور اپنے بین الاقوامی شراکت داروں سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ صورتحال کی سنگینی کا ادراک کریں اور طالبان اور دیگر مسلح مخالف گروپوں سے امن بات چیت کے لیے اعتماد سازی میں اپنا کردار ادا کریں۔‘‘

پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے اور افغانستان میں امن و مصالحت کے لیے ہر ممکن کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اپنے ایک ترجمان کے ذریعے طالبان کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے افغانستان میں’’اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کرنے‘‘ کی ضرورت پر زور دیا۔

XS
SM
MD
LG