رسائی کے لنکس

افغان حکومت داعش سے نمٹنے کے لیے پر عزم ہے: صدر غنی


صدر اشرف غنی
صدر اشرف غنی

صدر غنی نے یہ بھی کہا کہ طالبان کے ساتھ ممکنہ امن مذاکرات کی جزیات طے کرنے کے لیے آئندہ ماہ متوقع اجلاس میں طالبان تحریک کے ان دھڑوں سے رابطوں پر بات چیت کرنے کی ضرورت ہے جو تشدد کا راستہ چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔

جلال آباد میں بدھ کو ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے جمعرات کو کہا ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز نے گزشتہ ہفتے کیے جانے والے مختلف آپریشنز میں داعش کے درجنوں شدت پسندوں کو ہلاک کیا۔

بدھ کو افغانستان کے مشرقی شہر جلال آباد میں سیکڑوں افراد نے سڑکوں پر آ کر حکومت سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ صوبہ ننگرہار میں شدت پسند گروپ داعش اور طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیاں تیز کرے۔

مظاہرین نے داعش اور طالبان کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ ان گروپوں سے نمٹنے کے لیے مناسب اقدام نہیں کر رہی۔

جمعرات کو کابل میں ایک پریس کانفرنس میں صدر غنی نے کہا کہ افغان حکومت داعش کے خطرے سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہے۔

اطلاعات کے مطابق پاکستان سے ملحقہ افغان صوبے ننگرہار میں داعش نے اپنے ٹھکانے قائم کر لیے ہیں جن کے خلاف افغان سکیورٹی فورسز آپریشنز کر رہی ہیں۔

صدر غنی نے پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ طالبان کے ساتھ ممکنہ امن مذاکرات کی جزیات طے کرنے کے لیے آئندہ ماہ متوقع اجلاس میں طالبان تحریک کے ان دھڑوں سے رابطوں پر بات چیت کرنے کی ضرورت ہے جو تشدد کا راستہ چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔

پاکستان، افغانستان، چین اور امریکہ کے نمائندے امن کے عمل کی بحالی پر بات چیت کے لیے جنوری میں اسلام آباد میں ملاقات کر رہے ہیں۔ یہ عمل جولائی 2014ء میں طالبان رہنما ملا عمر کی موت کی خبر سامنے آنے کے بعد تعلطل کا شکار ہو گیا تھا۔

قیادت کے معاملے پر طالبان دھڑوں کے درمیان لڑائی سے امن کے عمل کی کامیابی کے امکانات متاثر ہوئے۔ حکومت کے لیے یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ حکومت مخالف تحریک میں کون سے دھڑے مذاکرات کے حق میں ہیں اور کون بغاوت کے حق میں۔

ملا عمر کے سابق نائب ملا اختر منصور نے گزشتہ جولائی میں قیادت سنبھالی تھی مگر ان کی قیادت کو کچھ طالبان دھڑوں نے مسترد کر دیا ہے۔

صدر غنی نے نامہ نگاروں سے کہا کہ ’’یہ واضح ہے کہ طالبان کئی گروہوں پر مشتمل ہیں اور متحد تحریک نہیں۔ یہاں بنیادی مسئلہ انتخاب کا ہے۔ امن یا دہشت گردی کے انتخاب کا۔ دہشت گردی کو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘

داعش کے خلاف افغان فوج اور صوبائی پولیس کے علاوہ بعض طالبان دھڑے بھی لڑائیوں میں مصروف ہیں۔

XS
SM
MD
LG