رسائی کے لنکس

دوحہ امن معاہدے کے چار سال مکمل؛ 'افغانستان میں بہت کچھ بدل چکا ہے'


امریکہ اور طالبان حکومت نے چار برس قبل 29 فروری کو دوحہ معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
امریکہ اور طالبان حکومت نے چار برس قبل 29 فروری کو دوحہ معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

چار سال قبل 29 فروری 2020 کو امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے 'امن معاہدے' کی کوریج کے سلسلے میں جب میں قطر کے دارالحکومت دوحہ کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل پہنچا تو وہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔

امن معاہدے سے ایک روز قبل ہی شیرٹن ہوٹل باہر سے آئے ہوئے مندوبین، صحافیوں، میڈیا ورکرز اور سفید شلوار قمیض اور کالی پگڑیاں پہنے طالبان کی ایک بڑی تعداد سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔

انتیس فروری کی سہ پہر طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر اور زلمے خلیل زاد کی جانب سے امن معاہدے پر دستخط کے ساتھ ہی پورا ہال 'اللہ اکبر' کے نعروں سے گونچ اٹھا۔ ساتھ ہی بیٹھے بعض طالبان رہنماؤں نے اس معاہدے کو اپنی کامیابی قرار دیا۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے 'امن معاہدے' کے ٹھیک 18 ماہ بعد طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھال لیا۔

چار سال بعد 18 اور 19 فروری کو افغانستان کی صورتِ حال سے متعلق ایک اور اجلاس کور کرنے کا موقع ملا۔

دوحہ میں ہونے والے اس اجلاس کی میزبانی اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کر رہے تھے جس میں رکن ممالک اور علاقائی تنظیموں کے خصوصی نمائندگان بھی شریک تھے۔ تاہم اس اجلاس میں طالبان وفد نے شرکت نہیں کی۔

طالبان کا مؤقف تھا کہ چوں کہ افغانستان میں اُن کی حکومت ہے، لہذٰا طالبان حکومت کے علاوہ کسی دوسرے سے ان مسائل پر بات چیت کا کوئی جواز نہیں ہے۔

'افغانستان میں بہت کچھ بدل چکا ہے'

مبصرین کے مطابق گزشتہ چار برسوں کے دوران افغانستان میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد طالبان سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ اخونذادہ طاقت کا محور ہیں۔ طالبان اس نئے نظام کو 'شرعی نظام' کہتے ہیں۔

افغان امور کے ماہر اور سینئر تجزیہ کار سمیع یوسفزئی دوحہ امن معاہدے کو طالبان حکومت کا 'گیٹ وے' قرار دیتے ہیں۔

سن 2020 اور پھر حالیہ اجلاسوں کی کوریج کرنے والے سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ چار برس کے دوران اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ افغانستان میں جمہوری نظام کی بساط بھی لپیٹ دی گئی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہی نہیں بلکہ گزشتہ 20 برس کے دوران امریکہ اور اتحادیوں کی جانب سے افغانستان میں شروع کیے گئے ترقی کے سفر کو بھی ریورس گیئر لگ گیا ہے۔

سمیع یوسفزئی کا کہنا تھا کہ دوحہ معاہدہ جہاں افغان عوام، امریکہ اور افغان جمہوریت کے لیے ایک تاریک باب ثابت ہوا وہیں طالبان کے لیے کامیابی کے دروازے کھل گئے۔

افغان امور کے ماہر کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ پانچ دہائیوں سے افغانستان کا بنیادی مسئلہ سیکیورٹی ہی رہا ہے جس میں ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں وار لارڈ کلچر بھی منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے، علاوہ ازیں دیارِ غیر میں بیٹھ کر افغانستان کے اندر پراکسی وار کا بھی کوئی شائبہ نہیں ہے۔

سمیع یوسفزئی کا کہنا تھا کہ اس وقت تمام احکامات فردِ واحد یعنی طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ کے ہی چل رہے ہیں اور ان پر من و عن عمل بھی ہو رہا ہے۔

اُن کے بقول افغان عوام بالخصوص خواتین اپنی شخصی آزادی، تعلیم اور روزگار کے مواقع سے محروم ہو گئی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ممالک طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔

واضح رہے کہ امریکہ سمیت مغربی ممالک کا اصرار رہا ہے کہ طالبان جامع حکومت کے قیام کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی تعلیم اور دہشت گردی کے معاملے پر عالمی برادری کے تحفظات دُور کریں۔

واضح رہے کہ طالبان حکومت اس نوعیت کے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ طالبان حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ وہ شریعت کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔

خواتین کو حکومت میں شامل کرنے کے مطالبے

دوحۃ کانفرنس میں شرکت کرنے والی سول سوسائٹی کی رُکن مترا مہران کہتی ہیں کہ طالبان کو بھی یہ احساس ہونا چاہیے کہ ان کی شرکت نہ کرنے سے نظام رُک نہیں جاتا بلکہ ان کی غیر موجودگی میں خواتین کے حقوق پر کھل کر بات ہوئی۔ لہذٰا طالبان حکومت کو اقتدار میں خواتین کی نمائندگی کو یقینی بنانا ہو گا۔

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دوحہ امن معاہدے کی مناسبت سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس' پر ہونے والی اسپیس میں کہا تھا کہ مغربی ممالک کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہونے والی افغان خواتین کو افغانستان کی صورتِ حال پر بحث و مباحثے کا اختیار نہیں ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق افغانستان میں انسانی اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے ملک کے اندر رہنی والی خواتین ہی ان مسائل پر بات چیت کرنے کا حق رکھتی ہیں۔

'افغانستان کو تنہائی میں رکھنے سے عوام کے لیے مشکلات ہوں گی'

کابل یونیورسٹی میں درس و تدریس کے شعبے سے منسلک پروفیسر فیض زالاند کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی میں سول سوسائٹی کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیوں کہ سول سوسائٹی عوام اور حکومتوں کے درمیان فاصلے کم کرنے میں نمایاں کردار ادار کرتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ معاشرے میں سول سوسائٹی ایک پُل کا کردار ادار کرتی ہے۔ تاہم موجودہ حالات میں سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے بیشتر افراد ملک چھوڑ کر دیگر ممالک میں سکونت اختیار کر چکے ہیں اور جو کچھ رہ گئے ہیں انھوں نے خوف کے مارے خاموشی میں ہی عافیت سمجھی ہے۔

عالمی برادری کے تاحال طالبان حکومت کو نہ تسلیم کرنے کے حوالے سے فیض زالاند کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کو افغانستان کے ساتھ بات چیت جاری رکھنی چاہیے۔ افغانستان کو تنہائی میں رکھنا نہ صرف افغان عوام کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتا ہے بلکہ عالمی برادری کو بھی اس عمل سے مستقبل میں مشکلات کا سامنا کر سکتا ہے۔

ان کے بقول عالمی سطح پر جب کسی ملک کو تنہائی کی جانب دکھیل دیا جاتا ہے تو وہاں خطے کے دیگر ملک پراکسی وار شروع کر دیتے ہیں جس کے سبب معاشی تنزلی کے ساتھ ساتھ تعلیم، بجلی اور حتیٰ کہ بڑے پیمانے پر انسانی بحران جیسے مسائل ابھرنا شروع ہو جاتے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG