رسائی کے لنکس

طالبان دور میں افغان خواتین رپورٹرز کیسے کام کر رہی ہیں؟


افغانستان میں خواتین کا اپنے حقوق کے لیے مظاہرہ ۔ فائل فوٹو
افغانستان میں خواتین کا اپنے حقوق کے لیے مظاہرہ ۔ فائل فوٹو

افغانستان میں خواتین کو عملی زندگی سے خارج کر دینے کے بعد کچھ بہادر خواتین رپورٹرزاپنی رپورٹنگ جاری رکھنے کے طریقے تلاش کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

طالبان کی حکومت کے تحت افغانستان میں ’’صدائے بانو‘‘ ایک غیر معمولی کوشش ہے ۔ یہ خواتین کے لیے خواتین کے ذریعے چلایا جانے والا ریڈیو اسٹیشن ہے۔خواتین اور میڈیا پر پابندیوں کے باوجود یہ ریڈیو اسٹیشن اب بھی تین صوبوں سے اپنی نشریات پیش کر رہا ہے ۔اس کے نام کا مطلب ’’عورت کی آواز ‘‘ہے ۔

حکومتی پابندیوں اور معاشی دباؤ کے باعث اسے اپنے کچھ پروگراموں میں کمی کرنا پڑی ہے۔

پروین خاوری بلخ میں ’’صدائے بانو‘‘ کی ایڈیٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے ہماری نشریات چوبیس گھنٹے کی تھیں لیکن معاشی مسائل اور رات کو خواتین کے کام کرنے پر پابندی کے باعث ہم نے اپنے پروگراموں میں کمی کرتے ہوئے اپنی نشریات کا وقت صبح چھ سے شام چھ بجے تک بارہ گھنٹے کے لیے کر دیا ہے ۔

وہ کہتی ہیں کہ پروگراموں کا معیار بھی متاثر ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ پہلے ہم زیادہ تفریحی شوز کرتے تھے۔ ہمارے سامعین کی تعداد زیادہ تھی ۔ ہم خواتین کو پروگراموں میں حصہ لینے کے لیےاب ریڈیو اسٹیشنوں پر نہیں بلا سکتے ۔ اس کے علاوہ ہمارے شوز کی نگرانی بھی کی جاتی ہے‘‘۔

میڈیا
میڈیا

طالبان کی طرف سے خواتین پر جو قوانین نافذ کیے گئے ہیں ان میں ایک حکم یہ بھی ہے کہ گھر سے باہر جاتے وقت ان کے ساتھ کوئی قریبی مرد رشتہ دار یا محرم ہو۔ اس حکم کی وجہ سے کچھ خواتین صحافیوں کے لیے اپنا کام جاری رکھنا مشکل ہو گیا ہے، تاہم انہوں نےمتبادل ر استہ تلاش کر لیا ہے۔

ہادیہ ابراہیمی میمانہ میں ’صدائے بانو‘ کی مینیجنگ ایڈیٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’میرے لیے محرم کے ساتھ روزانہ دفتر جانا ممکن نہیں تھا اور وہاں رہ کر شوز کی میزبانی نہیں کر سکتی تھی ۔ ان پابندیوں کی وجہ سے میں ریڈیو کو ہی گھر میں لے آئی اور گھر سے ریڈیو پروگرام کا آغاز کیا ۔ میرا خاندان میری کافی مدد کر رہا ہے‘‘۔

صحافتی آزادیوں کے لیے کام کر نے والی تنظیم ’رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز‘ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں میڈیا کے قوانین اب بدل گئے ہیں جو ایک زمانے میں بہت فعال ہوتا تھا ، مگر ایک تہائی صوبوں میں کوئی خاتون صحافی نہیں رہی ۔

تنظیم کے مطابق طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے 2700 خواتین رپورٹرز تھیں جن میں سے اب صرف 600 کام کر رہی ہیں۔جو لوگ اس وقت میڈیا میں اپنے فرائض سرانجام دے سکتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان کا کام زیادہ اہم ہو گیا ہے۔

ہادیہ ابراہیمی مزید کہتی ہیں کہ ’’یہ سب جانتے ہیں کہ اسکول بند ہیں۔ تعلیمی مراکز بند ہیں۔ لہذا ہم تعلیمی پروگرام تیار کرکے نشر کرتے ہیں‘‘۔

اس طرح کے پروگرام نشر کرنا ریڈیو اسٹیشنز اور ان کے سامعین کے لیے ایک ترجیح ہے کیونکہ طالبان نے بارہ سال اور اس سے زیادہ عمر کی لڑکیوں پر اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں جانے پر پابندی عائد کررکھی ہے ۔

(وی او اے نیوز)

XS
SM
MD
LG